کیا حکومت کا ریلیف پیکیج مہنگائی کی کمر توڑ پائے گا؟
لگتا ہے حکومت مرض کی تشخیص نہیں کر پائی، وقتی علاج پر گزارا ہو رہا ہے اشرافیہ کی معیشت پر سنجیدگی کا انداز ہ منتخب ایوانوں کی کارروائی سے لگایا جا سکتا
تجزیہ: سلمان غنی حکومت نے شدید سیاسی و عوامی ردعمل کے بعد مہنگائی زدہ عوام کے لیے پندرہ ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے ، جس کے تحت آٹا، چینی، چاول، دالیں اور گھی دس سے پندرہ فیصد کمی پر یوٹیلیٹی سٹورز پر دستیاب ہوں گے ۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر آٹے کا تھیلا 805 روپے میں، چینی 70روپے کلو، جب کہ کھانے کاتیل 175 روپے فی کلو ملے گا۔ یہ پیکیج پانچ ماہ کے لیے ہو گا۔ معاون خصوصی اطلاعات نے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اس اقدام سے مہنگائی کی کمر ٹوٹے گی، لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے اشیائے صرف و خوردنی کی ارزاں قیمتوں پر فراہمی کے عمل سے کیا واقعی مہنگائی کی کمر ٹوٹ پائے گی۔ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے باعث ملک میں استحکام قائم ہو سکے گا۔ بازاروں کے اندر اشیائے صرف و خوردنی کے حوالے سے لگنے والی آگ پر قابو پایا جا سکے گا۔ کیا حکومت بڑھتی ہوئی گرانی کے ذمہ داروں کا سراغ لگا چکی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کے حوالے سے تاخیر کیوں ہے ۔ یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے ریلیف کے اعلان کو محض ایک عارضی اور وقتی ریلیف تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر یہ ملک میں آٹا، چینی، چاول، دالوں اور گھی کی قیمتوں میں لگنے والی آگ کا کوئی علاج نہیں۔ اصل مسئلہ سبسڈی نہیں تھا۔ اصل مسئلہ بڑھتی ہوئی گرانی کے مرض کی تشخیص اور اس کا علاج تھا اور وزیراعظم عمران خان خود بھی یہ کہہ چکے تھے کہ اس حوالے سے سرگرم مافیاز کو انجام تک پہنچاؤں گا۔ اس حوالے سے خصوصاً آٹے کے بحران اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے عمل پر تو بعض ادارے حکومت کو ایسی رپورٹس فراہم کر چکے ہیں کہ کس طرح سے یہ بحران پیدا کیا گیا، کیوں کر کیا گیا، مقاصد کیا تھے اور اس صورت حال کے دوران صوبائی حکومتوں کا کردار کیا تھا؟۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہا تھا کہ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ سارا بحران کیوں کر اور کس طرح پیدا ہوا اور کس نے اپنی تجوریاں بھریں۔ لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ وزیراعظم بحران کے ذمہ داران پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہیں اور اب تو خود حکومت کے حلقوں میں بھی یہ چہ مگوئیاں عام ہیں کہ مہنگائی کا جن خود حکومت میں موجود ہے ، اسے کیوں قابو نہیں کیا جاتا۔ اگر موجودہ صورت حال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تویہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ حکومت میں آنے کے حوالے سے نہ تو پی ٹی آئی کی کوئی تیاری تھی اور نہ ہی حکومت میں آنے کے بعد ان کی معاشی پالیسیوں میں سنجیدگی تھی۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حکومت پر معاشی صورت حال کی بہتری سے زیادہ احتساب کا بخار سوار تھا اور کہا یہ جاتا رہا کہ ملک لوٹنے والوں سے اربوں کھربوں نکلوا کر غریب عوام کی حالت زار بدلیں گے ۔ کہا گیا کہ بیرون ملک سے دو سو ٹیکنو کریٹس آئیں گے وہ ملک کی تقدیر بدلیں گے ۔ بیرون ملک سے دو سو ارب آئیں گے جن سے قرضے بھی اُتریں گے اور عوام کو ریلیف بھی ملے گا لیکن یہ سارے صرف نعرے اور دعوے ثابت ہوئے ۔ معاشی بحران کے حوالے سے حکومتی نااہلی اور ناکامی کھل کر سامنے آ چکی ہے ۔ اشرافیہ کی معیشت پر سنجیدگی کا انداز ہ منتخب ایوانوں کی کارروائی سے لگایا جا سکتاہے ۔