کوئٹہ دہشتگردی، پاکستان کی کامیابیاں کسے ہضم نہ ہوئیں؟
پاکستان عالمی سفارتکاری کا مرکز بن چکا،دنیا بھر میں پاک فوج کو سراہا جارہا سی پیک منصوبے بھی بھارت امریکا کیلئے درد سر،قوم کو یکجہتی کی ضرورت ہے
تجزیہ:سلمان غنی ,کوئٹہ میں دہشت گردی کے ایک اور بے رحم واقعے نے پورے ملک میں تشویش کی لہر پیدا کردی ہے ۔ اہل بلوچستان اس لیے بھی ہماری توجہ اور ہمدردی کے اولین مستحق ہیں کہ اس سرزمین کو پاکستان مخالف قوتوں نے مسلسل پراکسی وار کا میدان بنا رکھا ہے ۔ بلوچ قوم نے اس دہشت گردی کا مقابلہ بھی کیا ہے اور اپنے خون کے نذرانے بھی دئیے ہیں۔ اس وقت ملک میں مجموعی طور پر دہشت گردی کے عفریت کا زور توڑا جا چکا ہے ۔ پاکستانی قوم سمیت دنیا بھر کی افواج اور سفارتکار ہر فورم پر بلا دھڑک اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں اور افواج پاکستان کی قربانیوں اور پاکستانی قوم کے عزم و حوصلے کو سراہتے ہیں۔ اس صورتحال میں کوئٹہ میں وقتاً فوقتاً دہشت گردی کے واقعات امن کی طرف بڑھتے حالات میں ایک کنکر کی طرح ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں کچھ سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ یہ ٹائمنگ کیسی ہے ؟ پاکستان کو حاصل ہونے والی سفارتی کامیابیاں کسے ہضم نہیں ہو رہیں؟ بلوچستان کے اندر بدامنی کا بیج کون بو رہا ہے ؟ یا صرف بلوچ قوم کے سپوت ہی کیوں اس دہشتگردی کا ایندھن بن رہے ہیں؟ دہشت گردی کے خلاف ہمارا علاقائی اور عالمی کردار کیا ہے ؟ اس وقت پاکستان عالمی سفارتکاری کا مرکز بنا بیٹھا ہے ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان میں ہیں۔ انہوں نے افغان تنازع کو لے کر پاکستان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے ۔ افغان مہاجرین کیلئے جس طرح پاکستان نے اپنے دل اور دروازے کھولے ہیں اس کی ایک دنیا معترف ہے ۔ دوسری جانب افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار بہت فیصلہ کن بن چکا ہے ۔ ترک صدر طیب اردوان بھی پاکستان آئے اور جس طرح انہوں نے کشمیر پر اپنی پوزیشن واضح کی وہ نئی دہلی کیلئے صف ماتم بچھنے کے مترادف ہے ۔ پاکستان اپنا کردار بڑھاتے ہوئے ایک نئے اسلامی معاشی اور فوجی بلاک کیلئے بھی سرگرم عمل ہے ۔ ظاہر ہے یہ کامیابیاں بھارت اور بھارت نواز افغان ایجنسیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں۔ دوسری طرف بلوچستان کا امن چین پاکستان معاشی منصوبوں (سی پیک) کیلئے بہت ضروری ہے ۔ یہ معاشی راہداری کئی حوالوں سے نئی دہلی اور واشنگٹن کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے ۔ پاکستان دشمن عناصر اسے سبوتاژ کرنے کیلئے کلبھوشن یادیو جیسے نیٹ ورک بناتے رہتے ہیں۔یہ تمام صورتحال ہم سے دوبارہ دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے کو مزید مضبوط اور مربوط کرنے کا تقاضا کر رہی ہے ۔ پاکستان پہلے بھی بحیثیت قوم اس جنگ میں سرخرو ٹھہرا ہے اور آئندہ بھی قومی یکجہتی اور یکسوئی ہی ہمیں امن کی منزل تک پہنچا سکتی ہے ۔