کورونا کے خلاف جنگ کیوں نہیں جیتی جا سکتی؟
عوام کی اکثریت احتیاطی تدابیر کررہی، امریکا ، یورپ کورونا کے سامنے ڈھیر تاخیر سے جانوں کا ضیاع ،وائرس کا پتہ چلانے کیلئے ٹیسٹ کی استعداد بڑھانا ہوگی
کورونا کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے اور حکومتی اقدامات اور احکامات کے نتیجہ میں بہت حد تک عوام کورونا کی وبا سے بچنے کیلئے حفاظتی اقدامات پر کاربند نظر آٓ رہے ہیں ۔کورونا کے خلاف جنگ کیوں نہیں جیتی جا سکتی؟جب پاکستان میں کورونا کی صورتحال کا دیگر بڑے بڑے ممالک پر کورونا کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ابھی تک نہ صرف صورتحال حکومت اور اداروں کے کنٹرول میں ہے بلکہ اس پر قابو پانے کیلئے کوششوں، کاوشوں اور اقدامات میں دن بدن اضافہ ہوتا نظر آر ہا ہے اور کورونا کے حوالے سے شائع شدہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ جس جس ملک نے بھی کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس پر قابو پانے میں سستی اور کمزوری دکھائی وہ اب تیزی سے اس کے سامنے ڈھیر ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔عوام کی اکثریت احتیاطی تدابیر کررہی ہے ، امریکا سمیت جدید یورپ کورونا کے سامنے ڈھیر ہوگیا ۔تاخیر سے جانوں کا ضیاع ،وائرس کا پتہ چلانے کیلئے ٹیسٹ کی استعداد کار بڑھانا ہوگی۔گو کہ اس وائرس کا آغاز تو چین سے ہوا اور اب چین ہی کورونا وائرس پر قابو پانے والا پہلا ملک ہے جہاں ہر آنے والے دن یہ خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں متاثرین کی تعداد میں کمی آ رہی ہے اور کورونا میں ملوث صحت یاب ہو رہے ہیں اور جن کے اندر کورونا وائرس کی منتقلی کا عمل تقریباً رک گیا ہے اس کی بڑی وجہ تو خود چینی عوام کے اندر پیدا شدہ جذبہ اور چینی حکومت کے اقدامات تھے ۔ چینی حکومت نے کہا کہ ماسک پہنو تو اگلے ہی روز چینی عوام ماسک پہنے نظر آئے ، پھر کہا گیا کہ آپس میں فاصلہ رکھو، تو فاصلے نظر آئے اور جنہوں نے فاصلے نہیں رکھے ان کے خلاف اقدامات بھی نظر آئے ۔ کامیابی کی دوسری مثال جنوبی کوریا کی ہے ۔چین جہاں شدت سے اضافہ ہوا، اتنی تیزی سے کمی بھی آئی۔ چین اور اردگرد کے ممالک خصوصاً ساؤتھ کوریا، ہانگ کانگ، سنگا پور میں بھی یہ قابو آتا نظر آ رہاہے مگر دوسری جانب امریکا، اٹلی، سپین میں اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور اس کے خلاف متحرک ہونے میں جتنی تاخیر ہوئی اتنی ہی یہاں تباہ کاریوں اور خصوصاً انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور اب امریکا میں یہ صورتحال تشویشناک حدوں کو چھوتی نظر آ رہی ہے ۔ اسی تناظر میں پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو آج سندھ کی حکومت کو اس لئے سراہا جا رہا ہے کہ انہوں نے خطرے کا ادراک کرتے ہوئے جتنی تیزی سے اقدامات کئے اس کے نتائج بہتر آئے ۔ متاثرین کی تعداد بڑھنے کی بجائے اب اس کے آگے بندبندھا نظر آر ہا ہے البتہ سندھ کے دیہی علاقوں میں اقدامات کا سلسلہ جاری ہے ۔ جہاں تک پنجاب ، پختونخوا، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور کشمیر کا سوال ہے تو یہاں متاثرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور کچھ اموات کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ حکومتیں اور انتظامی مشینری لاک ڈاؤن کو مو ثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے سرگرم نظر آ رہی ہے ۔ متاثرین کا پتہ چلانے میں بہت حد تک حکومتی ادارے کامیاب نظر آ رہے ہیں مگر جہاں تک ٹیسٹ کا عمل ہے تو اس کی رفتار بہت آہستہ ہے ۔ اس کی بڑی وجہ اس حوالے سے سہولتو ں کافقدان ہے ۔ پرائیویٹ لیبارٹریز نے کسی حد تک اقدامات ضرور کئے ہیں مگر پھر بھی رفتار کوکم ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔جب تک ٹیسٹ کی رفتار تیز نہیں ہوگی متاثرین کا کھوج لگا کر انہیں یہاں منتقل نہیں کیا جا سکے گا ٹیسٹ ہی بہتر اور مو ثر ہتھیار ہیں۔پاکستان کی حد تک یہ بات اطمینان بخش ہے کہ تحفظ اور کنٹرول کے اقدامات کرنے کے فیصلے کے ساتھ ان پر تیزی سے عمل کیا گیاہے ۔ بڑے تمام اجتماعات پر پابندی لگ گئی ہے یہاں تک کہ جمعہ کے اجتماعات کو بھی بند کر دیا گیا ۔ سکول ، کالجز ، یونیورسٹیاں اور بہت حد تک حکومتی و نجی ادارے بھی بند کئے گئے ہیں تا کہ سماجی میل جول کو محدود کر دیا جائے ۔ حکومت ریاستی ادارے ، انتظامی مشینری اور خصوصاً صحت کا سسٹم پوری طرح متحرک نظر آ رہا ہے ۔حکومتی اقدامات پر اسی سپرٹ کے مطابق عمل ہوتا رہا تو زیادہ دن نہیں لگیں گے کہ اس کے مثبت اثرات ضرور سامنے آئیں گے ۔ اور وبا پر کنٹرول کے ذریعہ معمولات زندگی بھی بحال ہوتے جائیں گے ۔ کورونا وائرس پاکستان کی ر یاست کا بہت بڑا امتحان ہے ۔ کم وسائل ، محدود سہولتوں کے باوجود اگر ہم اس کے آگے بند باندھنے میں کامیاب رہتے ہیں تو دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے بعد کورونا کی بلا پر قابو پانے کا عمل پاکستان کی عالمی حیثیت میں اضافہ کرے گا۔