خوف و ہراس کی فضامیں پاکستان کیلئے خیر کی خبریں
قرض موخر ہونے سے 12ارب ڈالرمعاشی بحالی و ترقی پر خرچ کئے جا سکیں گے شرح سود میں کمی سے ملکی معیشت اورتجارتی سرگرمیوں میں ا ضافہ بھی متوقع
(تجزیہ:سلمان غنی) کورونا وائرس اوراس کے ملکی معیشت پر ہونے والے تباہ کن اثرات کے بعد پہلی مرتبہ معیشت کی بحالی اور بہتری کے حوالے سے ایک ہی دن میں تین حوصلہ افزا خبریں سامنے آئیں ہیں ۔عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان سمیت 76 ممالک کے 40 ارب ڈالرز کے قرضے ایک سال کیلئے منجمد کر دیئے ،سٹیٹ بینک نے شرح سود میں دو فیصد کی کمی کرکے 9 فیصد کر دی ، یہ ایک ماہ میں ہونے والی تیسری کمی ہے ۔ دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان کو کورونا کے اثرات سے نمٹنے کیلئے ایک ارب چالیس کروڑ ڈالرز کا قرضہ معمولی شرح پردینے کا اصولی فیصلہ کر لیا ، مذکورہ تینوں اقدامات کے اثرات کے حوالہ سے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے ایک سال میں پاکستان پرقرضوں کا دباؤ ختم ہوگا، ملکی معیشت کی بحالی اور ترقی کیلئے مواقع پیدا ہوں گے اور مزید ایک ارب چالیس کروڑ ڈالرز کا قرض پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے اور آگے لیکر چلنے کا باعث بن سکے گا ۔قرضوں کوایک سال کیلئے منجمد کرنے سے براہ راست پاکستان کو دس سے بارہ ارب ڈالرز مہیا ہوں گے جسے ملکی معیشت کو کھڑا کرنے ، اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچانے ،مہنگائی، بیروزگاری کے رجحان کے خاتمہ کیلئے بروئے کار لایا جا سکے گا ۔ وزیراعظم عمران خان کو کریڈٹ دیا جا سکتا ہے جنہوں نے اس حوالہ سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو مکتوب بھجوانے کے ساتھ دنیا سے اس کی اپیل کی تھی اور ترقی پذیر ممالک کا کیس پیش کیا تھا ۔ قرض موخر ہونے کے اس عمل میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قرض موخر ہونے کے اس سارے عمل کا فائدہ صرف صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور بڑے بڑے تاجروں کو پہنچانے کی بجائے اپنی پالیسی کا محور عام آدمی کی حالت زار ،اس کیلئے تعلیم، صحت کی سہولتوں کی فراہمی اور اس کیلئے روزگار کو پیدا کرناچاہئے تاکہ مسائل زدہ ،مہنگائی زدہ عوام کیلئے ریلیف کا بندوبست ہو سکے اور اس کوواقعتاً حکومت کی تبدیلی کے ثمرات مل سکیں۔ ہماری بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ برسراقتدار آنے والی حکومتیں طاقتور اور خوشحال طبقات کے مفادات کی اسیر بن جاتی ہیں جس کی وجہ سے ملک میں دولت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے ۔ دوسری بڑی خبر سٹیٹ بینک کی ہے جس نے شرح سود میں دو فیصد کمی کی ہے ،جویہ ظاہر کرتا ہے کہ اب یہاں سرمایہ کاری اور صنعتی عمل میں بہتری آئے گی اور بالواسطہ طور پر اس کا فائدہ عوام کو بھی ہوگا، حکومت کو اس کا فائدہ یہ ملے گا کہ اندرون ملک حکومت کو قرضوں میں ادائیگی کم کرنا پڑے گی۔شرح سود میں کمی کا براہ راست صنعت کاروں بڑے تاجروں کو فائدہ ہوگا کیونکہ اس وقت پاکستان میں قرضوں میں سے 85فیصد قرضے انہیں ملتے ہیں جبکہ بینکوں میں اکاؤنٹس کی تعداد دوکروڑ بیس لاکھ ہے اور ان کا 80ہزار ارب بینکوں میں جمع ہے لہٰذا ان کیلئے منافع کی شرح کم ہوتی جا رہی ہے لہٰذا اسے براہ راست کوئی ریلیف نہیں مل پائے گا ۔آئی ایم ایف کا ایک ارب چالیس کروڑ ڈالرز ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے 80کروڑ ڈالرز کی فراہمی مشکل صورتحال میں ایک بڑاریلیف ہے تاکہ یہ رقم کورونا کے اثرات سے نمٹنے کیلئے سوشل سیکٹر خصوصاً صحت عامہ کو فعال بنانے کیلئے بروئے کار لائی جا سکے ۔ کورونا وائرس اس کی تباہ کاریوں اور معیشت پر ہونے والے مضر اثرات نے دنیا کے عام ممالک کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ وہ ایک نئی دنیا کے طور پر اپنی اکانومی کے نئے ماڈل متعارف کرا رہے ہیں ، وہ سیاسی اور پاپولر فیصلے کرنے کی بجائے اپنے اپنے ملکوں کے حالات کے پیش نظر حقیقت پسندانہ فیصلوں کیلئے سرگرم ہیں ،جن کے نتائج بہتر ظاہر ہوں گے جبکہ ہمارے ہاں پاپولر فیصلوں کا رجحان یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح عوام کی عدالت میں سرخرو ہونا ہے ۔پاکستان کے ارباب اقتدار کو بھی چاہئے کہ ایسے فیصلے کریں جس سے معیشت مستحکم بنیادوں پر استوار ہو ۔ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گی تو اس سے از خود ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کاعمل تیز ہو گا ،بے روز گاری کے طوفان کے آگے بندھ باندھا جا سکے گا ، روز گار کے مواقع پیدا ہوں گے ۔