مقبوضہ کشمیر پر دنیا تشویش تو ظاہر کرتی لیکن عملی اقدام کو تیار نہیں (تجزیہ: سلمان غنی)

 مقبوضہ کشمیر پر دنیا تشویش تو ظاہر کرتی لیکن عملی اقدام کو تیار نہیں (تجزیہ: سلمان غنی)

کشمیر پر پسپائی اختیار کی تو یہ بھارت اور اس کی قیادت کیلئے حوصلہ افزائی کا باعث ہوگی حقیقت یہ ہے کشمیر ایشو پر پاکستان کسی کمپرومائز اور غفلت کا مرتکب نہیں ہو سکتا

تجزیہ: سلمان غنی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بار بار اس خدشہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بھارت جھوٹے فلیگ آپریشن کی تیاری میں مصروف ہے ، وزیراعظم عمران خان کا5 اگست کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے اقدام کے بعد سے اب تک موقف بڑا واضح ہے اور انہوں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی اس حوالے سے جرات مندانہ خطاب کیا۔ مودی کے انتہا پسندانہ عزائم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا لیکن بنیادی ایشو یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا مودی اور اس کی سرکار کے انتہا پسندانہ عزائم پر کیونکر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک اور معاشروں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چیخنے چلانے والا مغرب اور عالمی قوتیں کشمیر کے ایشو اور خصوصاً مسلمانوں سے روا رکھے جانیوالے سلوک پر صرف نظر کیوں کر رہی ہیں۔کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ کشمیری نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ نہ ہوتی ہو۔ سفاک اور بے رحم لاک ڈاؤن اور کرفیو کے عمل کے باوجود کشمیریوں کو چوکوں چوراہوں پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتااور ان کی خواتین کی چیخ و پکار پر تذلیل کی جاتی ہے ۔ کشمیر کے اندر پیدا شدہ انسانی صورتحال کو دیکھا جائے تو دنیا کے مختلف ممالک اور انسانی حقوق کے ادارے اس پر تشویش تو ظاہر کرتے نظر آتے ہیں مگر عملاً کچھ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ دوسری جانب خود پاکستان کا سوال ہے تو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور دفتر خارجہ اس پر مذمتی بیان اور ٹویٹس تو جاری کرتے ہیں مگر دنیا کے سامنے بھارت کے مکروہ اور شرمناک چہرہ کو بے نقاب کرنے اور انہیں اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تحریک اور اقدام نہیں کر پا رہے جس کی وجہ سے ایک تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ کشمیر جیسے بین الاقوامی مسئلہ کا فریق اور وکیل ہونے کے باعث ہمارا جو کردار ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ادا ہو پا رہے جس کا فائدہ بھارت اور بھارتی افواج اٹھا کر کشمیریوں کی آواز پر اثرانداز ہونے کیلئے طاقت اور قوت کا استعمال کرتی نظر آتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ایشو پر پاکستان کسی کمپرومائز اور غفلت کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ آج اگر کشمیر جیسے ایشو پر ہم نے پسپائی اختیار کی تو یہ بھارت جیسے انتہا پسند ملک اور اس کی قیادت کیلئے حوصلہ افزائی کا باعث ہوگی۔ ہمارے ہاں تمام تر مشکل حالات کے باوجود اس ایشو کو مرکزی حیثیت حاصل رہنی چاہیے ۔ اس معاملہ پر قوم کے اندر تحریک کی بیداری کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ جتنا حکومت اورہماری سیاسی جماعتیں اس مسئلہ پر دباؤ بڑھائیں گی اتنا ہی یہ ایشو اور ہمارا کاز اجاگر ہوگا۔ کشمیر کے جوان ایک جانب جہاں اپنی آزادی اور حق خودارادیت کیلئے جان نچھاور کرنے کا عزم ظاہر کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب وہ یہ بھی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم موت سے نہیں ڈرتے لیکن ہم بھارت سرکار کو بھی جینے نہیں دیں گے ، ان کے سروں پر سوار رہیں گے ۔ اب تک کی بھارتی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو اس کی بڑی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح کشمیری حق خودارادیت کو بھول جائیں اور یہ عمل ہی اس کے تسلط کا باعث بن سکتا ہے لیکن کشمیریوں نے اپنی تاریخ ساز قربانیوں کے ذریعے جہاں اسے عالمی ایشو بنایا ہے وہاں دنیا اور اقوام متحدہ جیسے ادارے کو بھی ایکسپوزکیا ہے کہ وہ اس کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکے ۔ ان کے نزدیک جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا یہ عالمی مسئلہ رہے گا اور وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے کیونکہ اس مسئلہ کو خود بھارت اقوام متحدہ لے کر گیا اور عالمی برادری نے اس سے وعدہ کیا کہ یہ کشمیریوں کی مرضی سے طے ہوگا۔ یہ کبھی بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں رہا۔ اس مسئلہ کے بنیادی فریق بھارت پاکستان اور خود کشمیری ہیں لہٰذا اس حوالے سے عالمی برادری ،عالمی قوتوں کے دہرے کردار کو بے نقاب کرنا ضروری ہے کیونکہ عالمی سیاست میں مفادات کے کھیل کے تحت بعض عالمی قوتیں فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے امتیازی سلوک کا مظاہرہ کرتی آئی ہیں لہٰذا ان کے اس کردار کو بھی ہر سطح پر ایکسپوز کرنا چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ جو بھارت کشمیر کے اندر مظالم کر رہا ہے وہی بھارت خود ہندوستان کے اندر اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کا جینا اجیرن بنائے ہوئے ہے ۔ جہاں تک وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھارت کے کسی فلیگ آپریشن کی تیاری کا تعلق ہے تو بھارت کی جانب سے پاکستان کیخلاف اس طرح کے آپریشن اور عزائم کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے ، اس نے گزشتہ سال پاکستان پر شب خون مار کر دیکھ لیا اس کے حصہ میں بالا کوٹ میں صرف مایوسی آئی اور اس کی جگ ہنسائی ہوئی لیکن پاکستان نے اس کے طیاروں کی جانب سے کی جانیوالی خلاف ورزی کے عمل پر دن دہاڑے انہیں گرا کر یہ ثابت کر دیا کہ ہم اپنے مفادات اور اپنی آزادی پر کمپرومائز نہیں کر سکتے ۔ فوج کے پیچھے قوم چٹان کی طرح کھڑی ہوگی تو دشمن کے عزائم بھی خاک میں ملیں گے اور وہ پاکستان پر بری نظر ڈالنے سے بھی گریز برتے گا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کے جارحانہ اور مجرمانہ عزائم سے نمٹنے کیلئے قوم کو تیار کیا جائے اور اس حوالے سے تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے کر بھارت سمیت دنیا کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ ہم پرامن ملک ہیں ہمارا نیوکلیئر پروگرام بھی پرامن ہے مگر ہم اپنی سلامتی ،بقا کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ آج پاکستان کو بیرونی محاذ پر بھارت کے مقابلہ میں ایک اعزاز حاصل ہے ۔د نیا جان چکی ہے کہ پاکستان ذمہ دار ملک کی حیثیت سے مذاکرات کی بات کرتا ہے اور مسائل کے سیاسی حل کیلئے بھی کوشاں ہے جبکہ نریندر مودی اوراس کے طرزعمل نے بھارت کی سکیولر حیثیت کو ختم کر کے ایک انتہا پسند ہندوستان کی پہچان پیدا کی ہے اور خصوصاً کورونا بحران پر اس کا مکروہ چہرہ سامنے آیا ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں کسی قوم نے بیماری کو جہاد اور دہشت گردی قرار نہیں دیا مگر ہندوستان کا پورا سماج اس کی انتہا پسندانہ قیادت مسلمانوں کے حوالے سے کورونا جہاد اور کورونا دہشت گردی کے نعرے بلند کرتی نظر آ رہی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ انتہاپسندی کی آگ میں جلنے والا ہندو انتہا پسند اور اس کی قیادت بھارت کو کسی ترقی کی منزل پر نہیں بلکہ اس کے انجام تک پہنچائے گی جس کا آغاز ہو چکا ہے اور ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ نریندر مودی ہندوستان کی وحدت کیلئے خطرہ ہے اور یہ بھارت کیلئے گوربا چوف ثابت ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں