شہباز شریف کیس : 2 جج، 2 فیصلے ، الگ الگ تحریری فیصلوں پر دستخط، ایک نے ضمانت منظور، دوسرے نے مسترد کردی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ 20 اپریل تک معاملہ ریفری جج کو بھجوائیں گے

شہباز شریف کیس : 2 جج، 2 فیصلے ، الگ الگ تحریری فیصلوں پر دستخط، ایک نے ضمانت منظور، دوسرے نے مسترد کردی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ 20 اپریل تک معاملہ ریفری جج کو بھجوائیں گے

شہبازشریف کینسر کا شکاررہے ، دلائل کے بعد کمرہ عدالت میں متفقہ ضمانت منظور کی ، ساتھی جج کو مختصر فیصلہ دستخط کیلئے بھیجا تو انہوں نے اختلافی نوٹ کا کہہ دیا:جسٹس سرفراز ڈوگر ، میرے پاس مختصر فیصلہ دستخط کیلئے نہیں آیا ، بینچ سربراہ نے یکطرفہ طور پر نائب قاصد کے ذریعے ضمانت کا فیصلہ سنایا، شہباز شریف ذرائع آمدن ثابت نہ کرسکے :جسٹس علی اسجد

لاہور (محمداشفاق سے ) :لاہور ہائیکورٹ کے دونوں ججز نے منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت کے معاملے پر ایک دوسرے سے اختلاف کرنے کے بعد اپنے الگ الگ دستخط شدہ تحریری فیصلے چیف جسٹس قاسم خان کو بھجوادئیے ، اب چیف لاہور ہائیکورٹ 20اپریل تک معاملہ ریفری جج کو بھجوائیں گے ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس سرفراز ڈوگر نے فیصلہ میں کہاکہ شہباز شریف کی ضمانت منظوری کا فیصلہ ساتھی جج کی مشاورت سے کیا گیا ، تاہم بینچ کے ممبر جسٹس اسجد جاوید گھرال نے اپنے فیصلہ میں کہاکہ شہباز شریف کی ضمانت منظوری کا فیصلہ یکطرفہ تھا ، میرے انکار کرنے کے باوجود ضمانت منظوری کا فیصلہ سنایا گیا حالانکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ شہباز شریف آمدن سے زائد اثاثوں کی تفصیلات نیب کو بتانے میں ناکام رہے ۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بینچ نے شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کیس میں درخواست ضمانت سنی اور فیصلے پر اختلاف کیا۔جسٹس سرفراز ڈوگر نے شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت منظور کرنے کا فیصلہ لکھا جو 10 صفحات اور 16 پیراز پر مشتمل ہے جبکہ بینچ کے ممبر جسٹس اسجد جاوید گھرال نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ لکھا جو 14 صفحات اور 22 پییراز پر مشتمل ہے ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس سرفراز ڈوگر نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد کمرہ عدالت میں متفقہ طورپر ضمانت منظور کی گئی لیکن جب مختصر فیصلہ دستخط کے لئے بینچ کے دوسرے جج جسٹس اسجد جاوید گھرال کی طرف بھیجا گیا تو انہوں نے اس وقت یہ بات بتائی کہ وہ اس فیصلے کے ساتھ اپنا اختلافی نوٹ دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کیس کے دوالگ الگ فیصلے چیف جسٹس کو بھیجے جائیں گے اور وہ ریفری جج تعینات کریں گے ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس سرفراز ڈوگر نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ شہبازشریف کے وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل کی عمر 70 سال کے قریب ہے اور کینسر کے مرض میں بھی مبتلا رہے ہیں جبکہ ان کے خلاف جتنے بھی گواہان یا وعدہ معاف گواہان ابھی تک پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک نے بھی اپنے بیان میں شہباز شریف پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا۔ نہ ہی شہباز شریف کی آمدن اور چودھری شوگر ملز کی آمدن کو ریفرنس کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ یہ تمام دلائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شہباز شریف کیس کی اس سٹیج پر ضمانت کے لئے موزوں ہیں لہذا ان کی ضمانت کی درخواست قبول کی جاتی ہے ۔ تاہم انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ٹرائل کورٹ میں جاری اصل مقدمے پر اس فیصلے کا کسی طرح کا بھی قانونی اثر نہیں ہونا چاہئے ۔ دوسری طرف جسٹس اسجد جاوید گھرال نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ وہ نہایت ادب سے گزارش کرتے ہیں کہ فاضل جج جسٹس سرفراز ڈوگر نے ضمانت دینے کا فیصلہ کیا میں نے نہیں کیا۔ میں نے عدالت میں بھی ان سے اختلاف کیا اس کے بعد چیمبر میں بھی اس بات سے اختلاف کیا تاہم ساتھی جج جسٹس سرفراز ڈوگر نے یکطرفہ طور پر اپنے نائب قاصد کے ذریعے عدالت میں شہباز شریف کی ضمانت کا فیصلہ سنایا۔ میں اسی وقت معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لے آیا اور میرے پاس کسی قسم کا مختصر فیصلہ دستخط کے لئے بھیجا ہی نہیں گیا۔ جسٹس علی اسجد گھرال نے کہا نیب نے جتنا بھی ریکارڈ عدالت میں پیش کیا اس سے یہ بات واضح ہے کہ منی لانڈرنگ اور ٹی ٹیز کے ذریعے جو پیسہ منظر عام پر آیا ہے اس پیسے کے ذرائع کے حوالے سے نیب کو مطمئن نہیں کیا جا سکا اور مقدمہ بھی یہی ہے کہ شہباز شریف اپنی آمدنی کے ذرائع ثابت نہیں کر سکے ۔ انہوں نے شہباز شریف کی بیماری کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس بات میں صداقت ہے کہ ملزم نے کینسر جیسا موذی مرض بھگتا ہے لیکن جب یہ کیس سنا جا رہا ہے اس وقت ان کی صحت بالکل درست حالت میں ہے اور وہ جیل کے اندر بھی وہی ادویات کھار ہے ہیں جو وہ جیل کے باہر کھائیں گے اور ان کے وکیل نے بھی اس دلیل کومکمل ضمانت کی وجہ نہیں بنایا ہے ۔ لہذا شہباز شریف کی درخواست کی ضمانت ٹرائل کی اس سطح پر مسترد کی جاتی ہے ۔ دونوں معزز جج صاحبان نے اپنے دستخط شدہ فیصلے ہائیکورٹ آفس بھجوادئیے ۔ اب 20اپریل تک چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان اس معاملہ پر شہباز شریف کی درخواست ضمانت ریفری جج کے پاس بھجوائیں گے اورریفری جج شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر حتمی فیصلہ سنائے گا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں