سندھ کے سوا پورے ملک میں ترقی ، ٹرین حادثے پر وفاقی وزیر نے استعفیٰ نہیں دیا ، چیف جسٹس

سندھ کے سوا پورے ملک میں ترقی ، ٹرین حادثے پر وفاقی وزیر نے استعفیٰ نہیں دیا ، چیف جسٹس

ریلوے غریب کی سواری ،گھوٹکی میں آپ کی نااہلی سے لوگ مرے :سیکرٹری ریلوے کی سرزنش، ریلوے اراضی کی فروخت، ٹرانسفر،لیز روکنے کی ہدایت ، لندن،دبئی اورکینیڈاسے حکمرانی ہورہی، یہ ہوتا ہے پارلیمانی نظام حکومت، مجموعی طور پر لاقانونیت ،نالے صاف کرنہ سکے ،صوبہ کیسے چلائینگے :جسٹس گلزار ، سکولوں کی جگہ گدھے گھوڑے بندھے ، بجٹ میں مخصوص لوگوں کیلئے رقم ،شہریوں کو کیاملا؟لوگوں کوایک بوند پانی نہیں ملتا،پورا شہرکمرشل کردیا :ریمارکس

کراچی(سٹاف رپورٹر)سپریم کورٹ نے نسلہ ٹاور تجاوزات کیس کی سماعت وکلا کی درخواست پر16جون تک ملتوی کردی۔عدالت عظمیٰ نے ٹاور کی تعمیر سے متعلق کمشنر کراچی کی رپورٹ پر مدعا علیہان سے آئندہ سماعت پر جواب طلب کر لیا ۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزاراحمدنے ریمارکس دیئے کہ شاہراہ فیصل کو وسیع کرنے کیلئے تو فوجیوں نے بھی زمین دے دی تھی ،پتا نہیں کیا ہورہا ہے یہاں پر مسلسل قبضے کیے جارہے ہیں،سپریم کورٹ نے ریلوے کو تمام زمینوں کی فروخت، ٹرانسفراور لیز روکنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ نے ٹھیکہ لیا ہے لوگوں کو مارنے کا؟ ٹرین حادثے پر وفاقی وزیر نے استعفیٰ نہیں دیا ،پیر کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں لارجر بینچ نے نسلہ ٹاور تجاوزات کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب بھی دھندا چل رہا ہے ایس بی سی اے کا کام چل رہا ہے ،جو پیسہ دیتا ہے اس کا کام ہوجاتا ہے کتنا ہی غیر قانونی کام ہو،حکومت کہاں ہے ؟؟ کون ذمہ داری لے گا؟آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہے جھوٹی رپورٹس پیش کردیتے ہیں،سمجھتے ہیں عدالت کو پتا نہیں چلے گا؟ کراچی کا سسٹم کینیڈا سے چلایا جارہا ہے ،کراچی پر کینیڈا سے حکمرانی کی جارہی ہے ، یونس میمن سندھ کا اصل حکمران ہے ،وہی چلارہا ہے سارا سسٹم،ایڈووکیٹ جنرل آپ کی حکومت ہے یہاں کس کی حکومت ہے ؟ یہاں مجموعی طور پر لاقانونیت ہے ، کہاں ہے قانون؟ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ ہوتا ہے پارلیمانی نظام حکومت؟ ایسی ہوتی ہے حکمرانی؟چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ لوگ نالے صاف نہیں کرسکتے صوبہ کیسے چلائیں گے ؟دو سال ہوگئے آپ نالہ صاف نہیں کرسکے ،کاغذات پر پرانی تاریخ لکھ کر دے رہے ہیں، گورننس نام کی چیز نہیں،عدالت نے صوبائی حکومت کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا پورے ملک میں ترقی ہورہی ہے سوائے سندھ کے ، تھرپارکر میں آج بھی لوگ پانی کی بوند کیلئے ترس رہے ہیں،ایک آر او پلانٹ نہیں لگا، 15 سو ملین روپے خرچ ہوگئے ، حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے ؟ صورت حال بدترین ہورہی ہے ،بدقسمتی ہے ہماری، کوئی لندن سے حکمرانی کرتا ہے کوئی دبئی سے کوئی کینیڈا سے ،ایسا کسی اور صوبے میں نہیں ہے سندھ حکومت کا خاصا ہی یہ ہے ،یہاں ایک اے ایس آئی بھی اتنا طاقتور ہوجاتا ہے پورا سسٹم چلا سکتا ہے ،ایڈووکیٹ جنرل صاحب حکومت سے پوچھ کر بتائیں کیا چاہتے ہیں آپ؟کسی نے کل کلپ بھیجا ہے بوڑھی عورت کو وہیل چیئر پر ہسپتال لے جایا جارہا تھا،جائیں اندرون سندھ میں خود دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟ سب نظر آجائے گاعدالت نے ڈی ایچ اے فیز ون میں کمرشل سرگرمیوں کے خلاف درخواست پر کنٹونمنٹ بورڈ حکام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تمام کنٹونمنٹس کا یہی حال ہے ، پورے کراچی کو کمرشل کردیا گیا ہے ،دہلی کالونی سے خلیق الزماں روڈ پر تمام غیر قانونی عمارتیں بن گئیں، دس دس منزلہ غیر قانونی عمارتیں بن گئیں آپ کی آنکھیں بند تھیں؟ریس کورس پر گھر بنا دئیے ہیں، سندھ میں 2000 ڈالر کا ایس ای آ ئی پی کا منصوبہ 2014 سے 2017 تک چلا،اس رقم سے بڑی بڑی جامعات بن جاتی یہ رقم کہاں گئی؟ سب کرپشن کی نذر ہوگئی،سروے کے مطابق کراچی دنیا کے دس بد ترین شہروں میں شامل ہے ، ہو کیا ہورہا ہے یہاں؟پتا نہیں کہاں سے لوگ چلتے ہوئے آتے ہیں جھنڈے لہراتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے کسی کو نظر نہیں آتے ،کم از کم پندرہ بیس تھانوں کی حدود سے گزر کر آئے ہوں گے کسی کو نظر نہیں آیا،ابھی وہاں رکے ہیں کل یہاں بھی آجائیں گے ، ایڈووکیٹ جنرل کاکہناتھا کہ کل بجٹ کی تقریر ہے دو دن کی مہلت دیدیں، عدالت کاکہنا تھا کہ بجٹ تو پچھلے سال بھی آیا تھا لوگوں کو کیا ملا؟صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ، ادھر ادھر گھما دیتے ہیں آپ،اتنے برسوں سے آپ کی حکومت ہے یہاں کیا ملا شہریوں کو؟بجٹ تو ہر سال پیش کرتے ہیں مخصوص لوگوں کیلئے رقم مختص کردیتے ہیں بس،بعد ازاں سماعت 16جون تک ملتوی کردی گئی۔مزیدبرآں سپریم کورٹ نے الہٰ دین پارک سے متصل پویلین اینڈ کلب کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پویلین اینڈ کلب اور الہٰ دین پارک کا شاپنگ سینٹر2یوم میں گرانے کے لیے پولیس اور رینجرز کی مدد سے فوری کارروائی کی ہدایت کردی۔ عدالت نے راشد منہاس روڈ پر یو بی ایل کمپلیکس سے متصل زمین بھی خالی کرانے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔عدالت کا کہنا تھا کہ غیر قانونی زمین کی حیثیت کو تبدیل کرکے کمرشل کردیا گیا، پارک کی زمین پر کمرشل سرگرمی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔ سپریم کورٹ نے کلفٹن کے علاقے بوٹ بیسن پر کوم تھری کی تعمیر سے متعلق درخواست پر تمام کومز پر تعمیرات روکتے ہوئے 16 جون تک ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بوٹ بیسن پر کوم تھری اور کوم فور کی تعمیرات کی اجازت کیسے دی؟کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے بتایا کے ڈی اے نے اجازت دی۔ کمشنر کراچی، وزیراعلیٰ کا کوٹہ تھا اس بنیاد پر الاٹمنٹ ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کوم فور اور کوم فائیو کی اجازت کیسے دے دی؟ یہ تو سمندر کی جگہ تھی۔ بلڈر کے وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے الاٹمنٹ کو قانونی قرار دیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے آپ جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ رفاہی پلاٹ کا معاملہ تھا۔ چیف جسٹس نے ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی )کے ڈی اے کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کس بات کے ڈی جی ہیں آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں۔ کوم وغیرہ ختم کریں سب جہاں جہاں پلاٹ الاٹ کیے ہیں، بار بار مداخلت پر چیف جسٹس نے بیرسٹر عابد زبیری کی سرزنش کردی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے آپ کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے ؟ کیوں بار بار بول رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معیار ہے وکالت کا آپ یہ وکالت کررہے ہیں۔ بیرسٹر عابد زبیری نے معافی مانگ لی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ڈی جی صاحب اپنے عہدے پر رہنا ہے تو ٹھیک رپورٹ لے آئیں۔ بعد ازاں عدالت نے ملحقہ زمینوں کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کوم فور سمیت تمام کومز پر ہر قسم کی تعمیرات سے روک دیاعدالت عظمیٰ نے 16 جون کو تمام کومز کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ادھر سپریم کورٹ نے 36 ہزار پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کیس میں کمشنر کراچی کو سارے پلاٹس خالی کرانے کا حکم دے دیا۔عدالت عظمیٰ نے سٹیڈیم کے پاس ہائیڈرنٹس پر گھر بنانے کی اجازت کے حوالے سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں لارجر بینچ نے چائنا کٹنگ کے 36ہزار پلاٹس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کمشنر صاحب 36 ہزار پلاٹوں پر قبضہ ہوا ہے ، اگر آپ نہیں گرائیں گے تو آپ خود گر جائیں گے ، عدالت کے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے اور بغیر کسی رکاوٹ کے کارروائی کریں ،واٹر بورڈ نے پارک کی زمین خالی کروائی تھی وہاں شوروم کھل گیا۔ عدالت نے ایم ڈی واٹر بورڈ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا آپ نے پارک کیوں نہیں بنایا؟ ایم ڈی واٹر بورڈ کاکہناتھا کہ وہاں پر شوروم نہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ آپ ہمارے ساتھ کیوں مغز ماری کررہے ہیں، ہمارے ہاتھ سے کچھ ہوجائے گا، میں نے خود وہاں گاڑیاں دیکھی ہیں،آپ بھی اس سسٹم کا حصہ ہیں سب معلوم ہے آپ کیا کررہے ہیں۔سپریم کورٹ نے جیکب آباد کے تعلیمی اداروں کیلئے مختص زمینوں کی فروخت سے متعلق دائردرخواست پر مشیر وزیراعلیٰ سندھ اعجاز جکھرانی اور رکن سندھ اسمبلی اسلم ابڑو، کمشنر لاڑکانہ ، ڈپٹی کمشنر جیکب آباد کو کل طلب کرلیا، جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ جیکب آباد جیسا حال پورے سندھ کا ہے ، سکول کی جگہ پر ہوٹل چل رہے ہیں،پڑھنے کی جگہ پر گدھے گھوڑے بندھے ہوئے ہیں ،لوگوں کو پانی کی ایک بوند نہیں ملتی،علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کراچی میں پانی کی قلت سے متعلق دائر درخواست پر چیئرمین واپڈا کو طلب کرتے ہوئے کے فور منصوبے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ایم ڈی کو نوکر چاکر سب ملے ہوئے ہیں ان کو کیا پروا؟ہمیں تو پانی نہیں ملتا ٹینکر ڈلوانا پڑتا ہے ہمیں، ایم ڈی صاحب آپ سسٹم کا حصہ بن گئے اسلئے بچے ہوئے ہیں،آپ حصہ پہنچا دیتے ہیں اس لیے بچے ہو ئے ہیں، آپ ہر کام میں ملوث ہیں، اگر آپ یہ کام نہیں کررہے ہوتے تو تبدیل ہوگئے ہوتے ،صرف کراچی نہیں پورے سندھ کا یہی حال ہے حصہ پہنچانے والے افسران بیٹھے ہیں۔ عدالت نے چیئرمین واپڈا کو16جون طلب کرتے ہوئے کے فور منصوبے کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔مزیدبرآں سپریم کورٹ میں ریلوے کی اراضی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی،عدالت عظمیٰ نے ریلوے کو تمام زمینوں کی فروخت، ٹرانسفراور لیز روکنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے ٹھیکہ لیا ہے لوگوں کو مارنے کا؟آپ کی سیکرٹری شپ کے دوران کتنے لوگ مرگئے ؟آپ کے یا آپ کے وزیر کے ساتھ کچھ نہیں ہوا ،صرف غریب مررہے ہیں،نہ آپ جاتے ہیں نہ آپ کے وزیرجاتے ہیں صرف غریب جارہے ہیں،آپ لوگ زمینیں بیچ رہے ہیں بس یہی کام ہے آپ کے افسران کا؟ ۔عدالت نے سیکرٹری ریلوے کی سرزنش کرتے ہوئے کہا آپ کے دور میں کتنے لوگ مرگئے اب تک؟ ہزار دوہزار؟ تعداد بتائیں۔ جس پر سیکرٹری ریلوے کاکہناتھا کہ 65 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ 65 تو ایک حادثے میں ہلاک ہوئے ہیں ، کیا بات کررہے ہیں آپ، میں نے تو سنا تھا وفاقی وزیرپریس کانفرنس کرکے ا ستعفیٰٰ دیں گے ،مگر کچھ نہیں ہوا بس ٹی وی پر آکر افسوس اور15,15 لاکھ روپے دیں گے ،ریلوے غریب کی سواری ہے لوگوں پر رحم کریں،اس کو سیاست کیلئے استعمال نہ کریں باہر جاکر دیکھیں یہ سروس فری ہوتی ہے ،دنیا کہاں جارہی ہے اور ہم پیچھے جارہے ہیں،آپ سے نہیں چلتا تو جان چھوڑ دیں کیوں چپک کر بیٹھے ہوے ہیں عہدے سے ؟آپ لوگوں کو مزا لگا ہوا ہے اختیار اور اقتدار کا،لوگوں کے مرنے پر بھی مزے کررہے ہیں،گھوٹکی میں آپ کی نااہلی سے لوگ مرے ، آپ گئے نہ وزیر گئے ۔ چیف جسٹس نے کہا سنا ہے زمینوں کے حوالے سے کوئی آرڈیننس آرہا ہے ؟ایسا کوئی آرڈیننس آیا تو ہم اسٹرائیک ڈاؤن کردیں گے ،اٹارنی جنرل صاحب دیکھ لیں یہ وفاقی معاملہ ہے ،ہم متنبہ کررہے ہیں غیر قانونی الاٹمنٹ کو کور دینے کی کوشش نہ کریں۔ بعد ازاں سماعت ملتوی کردی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں