پاکستان میں سی آئی اے کا جاسوسی نیٹ ورک توڑ دیاگیا
مختلف ملکوں میں مخبر پکڑے گئے ، مارے گئے یا ڈبل ایجنٹ بن گئے :نیویارک ٹائمز
واشنگٹن(دنیارپورٹ)پاکستان میں سی آئی اے کا جاسوسی نیٹ ورک توڑ دیاگیا۔مختلف ملکوں میں مخبر پکڑے گئے ، مارے گئے یا ڈیل ایجنٹ بن گئے ۔مبینہ پولی کاؤنٹر انٹیلی جنس حکام نے ایک خفیہ پیغام کے ذریعے دنیا بھر کے سٹیشنز اور اڈوں کو بتایا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو دیگر ممالک میں جاسوسی کے لیے حاصل کئے گئے بہت سے لوگوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے ۔ ایک غیر معمولی ٹاپ سیکرٹ کیبل کے ذریعے دیئے جانے والے پیغام میں بتایا گیا ہے کہ سی آئی اے کا انسداد جاسوسی مشن کئی برسوں کے دوران غیر ملکی مخبروں کے کیسز کا جائزہ لے رہا ہے جو مارے گئے ، قتل کردیئے گئے ،گرفتارکرلیاگیا یا جن کے معاملے میں اصولوں پر سودے بازی کرلی گئی۔ نیویارک ٹائمزکی تفصیلی رپورٹ کے مطابق حالیہ چند برسوں کے دوران روس، چین، ایران اور پاکستان کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے ذرائع کی تلاش میں رہے ہیں ۔بعض کیسز میں انہوں نے سی آئی اے کے ایجنٹس یا مخبروں کو ڈبل ایجنٹ بھی بنا ڈالا۔کیبل میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ جاسوسوں اور مخبروں کا تقرر ایسا معاملہ ہے جس میں خطرات بھی مول لینے پڑتے ہیں۔ سی آئی اے کو لاحق مشکلات کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ ایجنٹس کا تقرر کرتے وقت تیزی دکھائی جاتی ہے تاہم کاؤنٹر انٹیلی جنس کے حوالے سے جن خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے ان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اس مسئلے کو مذکورہ کیبل میں سلامتی سے پہلے مشن کا نام دیا گیا ہے ۔سی آئی اے کے پاس خفیہ معلومات کو جمع کرانے کے کئی راستے اور ذرائع ہیں جن کا تجزیہ کرکے ماہرین پالیسی میکرز کے لیے بریفنگ کی تیاری کرتے ہیں تاہم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایجنٹس کی فراہم کردہ معلومات اس حوالے سے کی جانے والی کاوشوں میں کلیدی کردار کی حامل ہیں۔ اس نوعیت کی معلومات جمع کرنے کے حوالے سے سی آئی اے غیر معمولی ساکھ کی حامل رہی ہے ۔چند برسوں کے دوران بہت بڑی تعداد میں مخبروں پر سمجھوتا کرنے کے اعتراف سے بائیو میٹرک سکین، چہرے کی شناخت، مصنوعی ذہانت کے استعمال اور مخبروں تک پہنچنے کے لیے سی آئی اے افسران کی نقل و حرکت کا سراغ لگانے کے لیے آلات کی ہیکنگ جیسے معاملات میں دیگر ممالک کی مہارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ گزشتہ برس سی آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر فار کاؤنٹر انٹیلی جنس کے منصب پر ترقی پانے والی شیتل ٹی پٹیل مشن سینٹر کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے سی آئی اے کے موجودہ اور سابق افسران کو مختلف معاملات میں انتباہ کرنے کے حوالے سے کسی بھی مرحلے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔جنوری میں شیتل پٹیل نے سی آئی اے کے ان ریٹائرڈ افسران کو ایک خط بھیجا جس میں انہیں خبردار کیا کہ وہ خفیہ نیٹ ورک قائم کرنے کی کوششوں کے حوالے سے دوسری حکومتوں کو اپنی خدمات فراہم نہ کریں۔ بعد میں منظر عام پر آ جانے والے اس خط میں سی آئی اے کے سابق افسران سے کہا گیا کہ وہ صحافیوں سے گفتگو سے بھی گریز کریں۔ سی آئی اے کے خفیہ اندرونی نظام covcom میں نقب لگائے جانے سے چین اور ایران میں اس کے نیٹ ورکس کا سراغ لگانے میں مدد ملی ہے ۔ دونوں معاملات میں سی آئی اے کے مخبروں کو سزائے موت دے دی گئی۔ دوسروں کو سی آئی اے نے کسی نہ کسی طور نکال کر دوبارہ بسادیا۔ سی آئی اے کے ایک سابق آپریٹو ڈگلس لندن کہتے ہیں کہ جب کسی ایجنٹ کے ساتھ کچھ غلط ہو جاتا ہے تب کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کبھی کبھی حالات پر ہمارا کچھ اختیار نہیں ہوتا مگر بہت سے معاملات میں تساہل اور غفلت کے نتیجے میں بھی کسی ایجنٹ کے لیے حالات بہت برے ہو جاتے ہیں مگر تب اعلٰی عہدیداروں میں سے کسی کو بھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاتا۔ سی آئی اے کے سابق افسران کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے کیس افسران مخبروں کی خدمات حاصل کرکے اپنے لیے ترقی اور انعامات کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کیس آفیسرز کو بالعموم کاؤنٹر انٹیلی جنس آپریشنز کے حوالے سے ترقی نہیں دی جاتی، مثلاً یہ معلوم کرنا کہ کوئی مخبر کسی اور ملک کے لیے تو کام نہیں کر رہا۔ سی آئی اے نے دو عشروں کے دوران افغانستان، عراق اور شام جیسے ممالک میں دہشت گردوں کی طرف سے لاحق خطرات سے نمٹنے پر زیادہ توجہ دی ہے تاہم اب بھی چھوٹی یا بڑی دشمن ریاستوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول اس کا مرکزی ایجنڈا ہے ۔ آج کل پالیسی میکرز چین اور روس کے بارے میں زیادہ خفیہ معلومات کے حصول کے خواہش مند ہیں۔ سابق افسران نے بتایا کہ مخبروں کو کھو بیٹھنا کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ کیبل سے البتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر جتنا سمجھا جاتا ہے یہ معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہے ۔ یہ ان فرنٹ لائن افسران کے لیے انتباہ ہے جو جاسوسوں اور مخبروں کا تقرر کرنے اور انہیں کام پر لگانے کے عمل میں براہ راست شریک رہتے ہیں۔ اس کیبل نے سی آئی اے کے کیس افسران کو بتایا ہے کہ ساری توجہ صرف مخبروں یا ذرائع کے تقرر پر مرکوز نہیں رکھنی بلکہ انہیں حریف خفیہ اداروں کے دام میں پھنسنے سے بچانے کو بھی مقدم رکھنا ہے ۔ سی آئی اے کی ترجمان سے جب اس میمو کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ سی آئی اے کے سابق افسران کا یہ بھی کہنا ہے کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حریف خفیہ ادارے سی آئی اے کے کسی ایجنٹ کا سراغ لگالیتے ہیں تو اسے گرفتار کرنے کی بجائے ڈبل ایجنٹ بناکر امریکا کے خلاف استعمال کرنے لگتے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ طالبان اور خطے کی انتہا پسند تنظیموں سے پاکستان کے روابط کے بارے میں زیادہ جاننا اب بہت اہم ہے ۔ اب ایک بار پھر سی آئی اے پر پاکستان میں مخبروں کا نیٹ ورک تیار کرنے کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ ہے ۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کیے ہی بنتی ہے کہ اس نوعیت کے نیٹ ورکس کا سراغ لگاکر انہیں توڑنے میں پاکستان کو ملکہ حاصل ہے ۔