سرکاری ملازم خاتون کے انتقال کے بعد شوہر کو نوکری ملے گی: لاہور ہائیکورٹ

سرکاری ملازم خاتون کے انتقال کے بعد شوہر کو نوکری ملے گی: لاہور ہائیکورٹ

یہ بات انتہائی مضحکہ خیز کہ رنڈوا کبھی بیوی پر انحصار نہیں کر سکتا ،عورت بھی اتنی ہی سول سرونٹ جتنا مرد ، جسٹس شان گل ، بے رو زگا ر رنڈوا خصوصی سلوک کا مستحق ، سول سرونٹس ایکٹ کے رول 17اے میں ترمیم اور شوہر کو نوکری دینے کا حکم

لاہور (محمداشفاق سے )لاہور ہائیکورٹ نے دوران سروس انتقال کرجانیوالی سرکاری ملازمہ کے شوہر کونوکری دینے کے حوالے سے تاریخی فیصلہ جاری کردیا ۔عدالت نے سروس رولز1974کے سیکشن 17اے میں ترامیم کے احکامات جاری کردئیے ۔لاہورہائیکورٹ کے جسٹس شان گل نے 33 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا۔ درخواست گزار محمد صدیق نے موقف اختیارکیاتھا کہ بیوی کے انتقال کے بعد محکمہ سکو ل ایجوکیشن میں بیوی کی جگہ بطور جو نیئر کلرک تعیناتی کی درخواست دی۔ پنجاب سول سرونٹ ایکٹ 974 1کے رولز 17اے کے تحت درخواست دی جس کے تحت ایک سرکاری ملازم کی بیوہ کو نوکری دی جاتی ہے ۔ محکمے نے درخواست اس نقطے پر مسترد کی کہ رولز 17 اے کے تحت مرد سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد اسکی بیوی کو نوکری دی جاتی ہے ، بیوی کے انتقال کے بعد شوہر کو نوکری نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس محمد شان گل نے فیصلہ میں کہاکہ یہ بات بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ رنڈوا کبھی بیوی پر انحصار نہیں کر سکتا لہذا رولز 17 اے کا فائدہ مرد کو نہیں دیا جاسکتا۔ ایک عورت بھی اتنی ہی سول سرونٹ ہے جتنا ایک مرد ہے ۔ ایگزیکٹو کی جانب سے قانون کی تشریح محض لفظی بنیادوں پر کی گئی جبکہ اسکے مقاصد کو مد نظر نہیں رکھا گیا یہ بات انتہائی گستاخانہ اور بے جا ہے کیونکہ موجودہ دور میں خواتین اپنی آزادی کے طرف بڑھی ہیں ، سرکاری ملازم خاتون کے انتقال کے بعد شوہر کو نوکری ملے گی ۔عدالت نے پنجاب حکومت کو پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974 کے رول 17 اے میں ترمیم کرنے کا حکم دے دیا ۔تمام حقائق سے یہ ثابت ہوا کہ سول سرونٹس کا رولز 17 اے موجودہ شکل میں امتیازی ہے جو کہ آرٹیکل 4،25 ،27 سے متضاد ہے موجودہ کیس میں بھی انتظامیہ کو دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے ،سرکاری ملازمہ کے رنڈوے کو نوکری نہ دینا برا قانو ن ہے اور آئین کی خلاف ورزی بھی ہے ۔ رول 17 اے میں متوازن اور متناسب ترمیم کی ضرورت ہے جس سے ایک سرکاری ملازمہ کے رنڈوے کو نوکری مل سکے ۔جسٹس محمدشان گل نے فیصلہ میں لکھا کہ عدالت کے سامنے یہ معاملہ 17جون کو آیا اور فوری طور پر فریقین سے تفصیلی جواب مانگا گیا تین عدالتی احکامات کے بعد محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈٰی اور ایڈووکیٹ جنرل آ فس نیند سے جاگا اور جواب جمع کرایا موجودہ کیس میں رولز 17 اے کو یقینی طور پر غلط سمت میں لیا گیا ،فیصلہ میں کہاگیاکہ رول 17اے کا فائدہ ایک بے رو زگار رنڈوے کو کیوں نہیں دیا جاسکتا جو کہ اپنی بیو ی پر انحصار کرتا رہا ہو ،بے روزگار رنڈوا خصوصی سلوک کا مستحق تھا۔ رولز 17 اے کے حتمی مقاصد یہ تھے کہ ایک سرکاری ملازم جس کاانتقال ہوجائے اسکی فیملی کو فوری ریلیف دیا جائے ،مرد اور خواتین دونوں سول سرونٹس ہوسکتے ہیں۔ عدالتی معاون ابوذر سلمان نے دلائل دئیے جسٹس محمدشان گل نے فیصلہ میں مزید لکھا کہ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی گفتگو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آج کے دورمیں بھی خواتین مردوں سے کمزور ہیں۔ انتہائی عجیب ہے کہ ایسا ملک جہاں دو بار خواتین وزیر اعظم کے عہدے پر رہ چکی ہوں وہاں صوبائی حکومت کا یہ موقف اختیار کرنا افسوسناک ہے یہ رول اس وقت متعارف کرایا گیا جب سرکاری محکموں میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی ،رول جب متعارف کرایا گیا کہ اس وقت خواتین کو کمزور سمجھا جاتا تھا اور انہیں سماجی بہبود کی ضرورت تھی ،آرٹیکل 25 کا 1973 میں جنم ہو اجس کا مقصد تھا کہ کسی سے امتیازی رویہ نہیں برتا جائے گا ،فیصلہ میں کہاگیاکہ خواتین کے لیے وہ تمام محکمے نوکریوں کے لیے کھولے گئے جن پر پانبدی عائد تھی ،عدالت یہ تجویز کرتی ہے کہ رولز اس بات کی اجازت دے کہ سرکاری ملازمہ کے ر نڈوے کو نوکری مل سکے ۔محکمہ سکول ایجوکیشن درخواستگزار کے کیس پر دوبارہ غور کرے ۔ عدالت آئینی درخواست منظور کرتی ہے ۔عدالت نے خاتون سرکاری ملازمہ کے انتقال کے بعد اس کے شوہر کو اسکی جگہ پر نوکری دینے کے احکامات جاری کردئیے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں