سابق جج کے بیان حلفی پر ہلچل : رانا شمیم جھوٹے تو بدترین سزا دیں سچے ہیں تو ثاقب نثار کو جیل بھیجیں : ن لیگ ، عدلیہ پر حملہ اور ججوں کیخلاف الزامات ن لیگ کی پرانی تاریخ : وزرا

سابق جج کے بیان حلفی پر ہلچل : رانا شمیم جھوٹے تو بدترین سزا دیں سچے ہیں تو ثاقب نثار کو جیل بھیجیں : ن لیگ ، عدلیہ پر حملہ اور ججوں کیخلاف الزامات ن لیگ کی پرانی تاریخ : وزرا

کیوں نہ آپکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں : سابق جج رانا شمیم ، صحافی انصار عباسی اور میر شکیل الرحمن آج اسلام آباد ہائیکورٹ طلب ، ثاقب نثار نے اسلام آبا د ہائیکورٹ کے جج کو حکم دیا کہ الیکشن 2018 سے پہلے نواز شریف،مریم کی ضمانت نہ لیں :رانا شمیم،انھیں رنج ہے کہ ملازمت میں تو سیع نہ ہونے دی :ثاقب نثار ، سازش بے نقاب ، نئے انتخابات کرائے جائیں :شہباز، عباسی ، خواجہ آصف ،جس جج کا نام لیا وہ بنچ میں شامل ہی نہیں،مریم کا کیس لگا تو بیا ن حلفی آگیا :فواد ، فرخ حبیب،مراد سعید ، اعجاز چودھری

اسلام آباد(اپنے نامہ نگارسے )اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نوازکے زیر سماعت کیسز سے متعلق سابق چیف جسٹس کے بیان حلفی کی خبر پر نوٹس لیتے ہوئے انگریزی اخبار کے سینئر صحافی میر شکیل الرحمن، عامر غوری، انصار عباسی اور سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں آج منگل کو طلب کرلیا جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ایڈووکیٹ جنرل کومعاونت کیلئے پیش ہونے کی ہدایت کی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ زیرالتوا معاملے پر رپورٹنگ ہوگی توکیا یہ مناسب ہے ؟ عدالت اس معاملے کوبہت سنجیدہ لے گی کیوں نہ ہائیکورٹ کا وقارمجروح کرنے پرتوہین عدالت کی کارروائی کا آغازکریں؟ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے رہنمائوں کو کمرہ عدالت طلب کیا اور صدرایسوسی ایشن ثاقب بشیر سے استفسار کیاکہ آپ سب اس عدالت میں موجودرہتے ہیں، یہاں پر آپ کے سامنے بہت سارے کیسز زیر سماعت ہیں، کیا لوگوں کا اعتماد اس طرح اٹھایاجائے گا،کوئی انگلی اٹھا کر بتائے ، مجھے اس عدالت کے ہر جج پر فخر ہے اس قسم کی رپورٹنگ سے مسائل پیدا ہوں گے ، اس عدالت نے ہمیشہ اظہار رائے کی قدر کی ہے اور اظہار رائے پریقین رکھتی ہے ، اگر اس عدالت کے غیر جانبدارانہ فیصلوں پر انگلی اٹھائی جائے تو یہ اچھا نہیں ہوگا،عدالت اس معاملہ کو بہت سنجیدہ لے گی،زیر التوا کیسز پر بات کرنا روش بن گئی ہے ،کیا کوئی بیان حلفی عدالتی کارروائی کا حصہ ہے ؟یہ کیسز پر اثراندازہونے کی کوشش ہے ، یہ عدالت آپ سب سے توقع رکھتی ہے کہ لوگوں کا اعتماد اداروں پر بحال ہو، زیر سماعت کیسز پر اس قسم کی کوئی خبر نہیں ہونی چاہیے ، ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان کیس بھی یہی تھا۔بعدازاں عدالت نے سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیاجس میں کہاگیاہے کہ رجسٹرار آفس نے انگریزی اخبار میں چھپنے والی خبر کی طرف توجہ دلائی،انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر زیر التوا کیس سے متعلق ہے ، عدالت سے باہر کسی قسم کا ٹرائل عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے مترادف ہے ،انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر بادی النظر میں زیر سماعت مقدمے کی عدالتی کارروائی پر اثر ہونے کی کوشش ہے ،میر شکیل الرحمن، عامر غوری، انصار عباسی، رانا محمد شمیم ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، فریقین پیش ہو کر بتائیں کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے ، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل بھی ذاتی حیثیت میں پیش ہوں،آج ساڑھے دس بجے کیس کی سماعت کریں گے ۔ عدالتی فیصلے کے مطابق عدالتی کارروائی کو متنازعہ بنانا مجرمانہ توہین عدالت ہے بادی النظر میں متنازعہ خبر لگانے کا مقصد عدالت سے عوام کا اعتماد ختم کرنا ہے ،بادی النظر میں متنازعہ خبر لگانے کا مقصد عدالت کو سکینڈلائز کرنا ہے ۔ بیان حلفی عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں، خبر کا مقصد عدالتی کارروائی کو متنازعہ بنانا ہے ۔ سابق جج کے بیان حلفی نے ہلچل مچا دی، سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا کہنا ہے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے اسلام آبا د ہائیکورٹ کے جج کو حکم دیا کہ الیکشن 2018سے پہلے نواز شریف،مریم کی ضمانت نہ لیں ، جبکہ ثاقب نثار نے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا سابق چیف جج کو رنج ہے کہ ملازمت میں تو سیع نہ ہونے دی ، ن لیگ نے کہا رانا شمیم جھوٹے ہیں تو بدترین سزا دیں سچے ہیں تو ثاقب نثار کو جیل بھیجیں ، جبکہ وزرا نے کہا عدلیہ پر حملہ اور ججوں کیخلاف الزامات ن لیگ کی پرانی تاریخ ہے ،جس جج کا نام لیا وہ بینچ میں شامل ہی نہیں،مریم کا کیس لگا تو بیا ن حلفی آگیا ۔ رانا شمیم نے اپنے بیان حلفی کے دعوے کو دہرایا اور کہا سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 14جولائی 2018 کو ایک 27 رکنی وفد کے ہمراہ گلگت بلتستان آئے تھے ، وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ لان میں بیٹھے تھے اور وہ ٹیلی فون پر ہدایات دے رہے تھے ، وفد میں دو بزنس مین بھی شامل تھے جو کہ گلگت بلتستان میں ایک جھیل کے قریب ایک ہوٹل بنانا چاہتے تھے ،وفد میں شامل تمام افراد کا خرچہ اپنی جیب سے ادا کیا ،ایک روز وہ لان میں اپنی مرحومہ اہلیہ کے ہمراہ میاں ثاقب نثار اور ان کی اہلیہ کے ساتھ بیٹھے تھے ،ثاقب نثار پریشان تھے اور اپنے رجسٹرار سے مسلسل فون پر بات کر رہے تھے اور انھیں ہدایات دے رہے تھے کہ فلاں جج کے پاس جاؤ، اس جج سے میری بات کرواؤ اور اگر بات نہ ہو سکے تو ہائی کورٹ کے اس جج کو میرا پیغام دے دیں کہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو کسی بھی قیمت پر ضمانت پر رہائی نہیں ملنی چاہیے ، میں نے ثاقب نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ یہاں چھٹیاں گزارنے آئے ہیں تو تمام معاملات کو ایک طرف رکھیں اور اپنی چھٹیاں گزاریں، جس پر پہلے وہ ناراض ہوگئے لیکن کچھ دیر کے بعد لہجہ بدلتے ہوئے بولے آپ پنجاب کی کیمسٹری کو نہیں سمجھتے ،پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے بہت مختلف ہے ۔انہوں نے کہا ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو میاں ثاقب نثار پُرسکون ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک اور چائے کا کپ طلب کیا۔سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق جج کے دعوے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا میری سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم سے صحن میں کبھی کوئی ملاقات ہوئی ہی نہیں،میں نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کے جاری کردہ کچھ فیصلوں کو معطل کیا تھا،جب ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے مجھ سے شکوہ کیا تھا کہ میری کچھ آبزرویشنز کی وجہ سے ان کی توسیع نہ ہوسکی ۔ سابق چیف جج جی بی نے بیان حلفی میں جو کہا وہ انکا ذاتی معاملہ بھی ہو سکتا ہے اور کسی کے کہنے پر بھی ایسا کر سکتے ہیں،میں یہ اندازہ نہیں لگا سکتا،ہرجانے کا دعویٰ کرنے کے سوال پرانہوں نے کہا میں اتنا بیوقوف نہیں کہ خود کو مقدمہ بازی میں الجھاؤں، مجھ پر جو الزام لگایا گیا وہ انتہائی لغو ہے ، مجھے اپنے منصب سے اتنا نیچے آکر بیان حلفی دینے کی کوئی ضرورت نہیں،میں عدالتوں اور کچہریوں کے چکر کیوں لگاؤں؟ سپریم کورٹ کی طرف سے ازخود نوٹس سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا مجھے اس کے بارے میں کوئی علم ہے نہ میں کسی سے رابطے میں ہوں۔ یہ چیف جسٹس آف پاکستان پر منحصر ہے وہ ازخودنوٹس لیتے ہیں یا نہیں، انہوں نے کہا میری جج ارشد ملک سے کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی،میں تھوڑی دیر پہلے سورۃ یاسین کی تلاوت کر رہا تھا، باوضو ہوں، قسم کھانا مناسب نہیں سمجھتا،جب ارشد ملک کے خلاف سکینڈل بنا تب پہلی بار ان کی تصویر دیکھی،انہوں نے شوکت عزیز صدیقی کے با رے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیر سماعت تھی ، اس لیے ان سے ملاقات کرنے سے انکار کیا، سابق چیف جسٹس سے سوال کیا گیا کہ کیا کبھی آپ ڈی جی آئی ایس آئی سے ملے ؟تو ثاقب نثار نے کہاکہ میں نے ایک بار کسی تقریب میں جانا تھا سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ڈی جی کے ماتحت سے ایک ملاقات ہوئی،انہوں نے تقریب میں جانے سے منع کیا تھا۔ ثاقب نثار نے کہا جب پاناماکیس کیلئے بینچ بنا تو میں نے خود کو اس بینچ سے الگ کیا تھا،اس وقت میرے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ میں نواز شریف دور میں سیکرٹری قانون رہا ہوں اور ان کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں،پاناماکیس سننے والے پانچ ججوں سے کبھی ملا نہ کبھی ان سے بات ہوئی، جب پاناما کیس ہوا تو میں اس وقت چیف جسٹس تھا ،بینچ پر رائے نہیں دے سکتا تھا ۔ سپریم کورٹ نے پاناما کا جو بھی فیصلہ دیا بطور سابق چیف جسٹس اس سے پیچھے نہیں ہٹتا، اگر کسی سے نا انصافی ہوئی ہے تو اسے عدالتوں سے ریلیف مل جائے گا، میں نے عمران خان کو دستیاب شواہد کی بنیاد پر صادق اور امین قرار دیا،عمران خان کے کیس میں دو نکات تھے ایک بنی گالا کا گھر اور دوسرا لندن کی جائیداد،ان دونوں معاملات پر منی ٹریل آتی رہی،میرے سامنے عمران خان کا سیتا وائٹ کا کیس نہیں تھا کہ اس پر فیصلہ دیتا، عمران خان نے گولڈسمتھ کے ذریعے بہت سی دستاویزات بھیجی تھیں، میرے سامنے جو دستاویزات تھیں ان پر فیصلہ دیا،بنی گالا کو ریگولرائز کرنے کا کام میری ریٹائرمنٹ کے بعد ہوا،ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا نواز شریف کی حکومت گرانے میں آپ کا کوئی کردار تھا؟ تو ثاقب نثار نے کہا پتا نہیں میرے خلاف یہ تاثر کس نے پھیلایا ہے ، نہ میں نے حکومت کو ہٹایا، نہ گرایا اور نہ ہی میرا اس میں کوئی کردار تھا،میرے فیصلوں پر اگر عوامی تنقید ہوتی ہے تو اسے کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے ۔ نواز شریف سے میرا نہ کوئی ذاتی عناد تھا اور نہ ہی کوئی رنجش تھی، میں کسی سازش کا کبھی حصہ نہیں رہا۔ ڈیم بنانا پورے پاکستان کی ضرورت تھی،ڈیم بنانے کے معاملے پر تمام جج ایک پیج پر تھے ، ہسپتالوں کے دورے اور شراب کی بوتلیں برآمد کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا مجھ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس وقت عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہو رہا تھا اس لیے ایسا کیا۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے جواب پر سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ ثاقب نثار جھوٹ بول رہے ہیں، خود کو قانون اور آئین کا ماہر سمجھنے والے ثاقب نثار نے آئین اور قانون کے خلاف بات کی ہے ،دنیا نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم نے سوال اٹھایا کہ ثاقب نثار بتائیں آئین کے کس آرٹیکل کے تحت وہ چیف جسٹس گلگت بلتستان کو توسیع دے سکتے ہیں، کبھی توسیع کے لئے کہا ہی نہیں اور نہ ہی چیف جسٹس پاکستان اس کا اختیار رکھتے ہیں، چیف جسٹس گلگت بلتستان اور چیف جسٹس آزاد کشمیر کا عہدہ مساوی ہے ، چیف جسٹس گلگت بلتستان کو توسیع دینے کا اختیار وزیراعظم پاکستان کا ہے ، انہوں نے کہا میرا بیان حقائق پر مبنی ہے ۔اپنے ایک ایک لفظ پر قائم ہوں ، حلف نامہ کب اور کس کو دیا یہ ابھی نہیں بتا سکتا ، میں کوئی سیاسی شخصیت نہیں جو سیاسی بیانات دوں، جو بھی حقائق معلوم تھے سامنے لے آیا۔ادھر مسلم لیگ (ن)نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کے انکشافات کے معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھانے اور قانونی چارہ جوئی کیلئے مشاورت کرنے کا اعلان کر دیا ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر ، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں (ن)لیگ کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہو ئے دعویٰ کیا کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے بغیر کسی دباؤ کے حلفیہ بیان دیا ہے ، بدنیتی سے نواز شریف کو نااہل کرکے سیاست سے علیحدہ کر دیا گیا، چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار اور رانا شمیم سمیت تین افراد کو حقیقت کا علم ہے لیکن پاکستان کے عوام کو بھی سچ پتا چلنا چاہیے ،صرف نواز شریف کی ضمانت اور سزا کا معاملہ نہیں ،الیکشن میں مداخلت سامنے آئی ہے ،جواب دینا پڑے گا ، رانا شمیم نے یہ بیان حلفی لندن میں ایک اوتھ کمشنرکے رو برود یا جس میں 2018 میں آنکھوں دیکھے احوال کا ذکر کیا ،جو اب سب کے سامنے آ رہا ہے ، رانا شمیم اگر جھوٹ بول رہے ہیں تو انہیں بدترین سزا دی جائے ، اگر رانا شمیم سچ بول رہے ہیں تو چیف جسٹس (ر)ثاقب نثار کی جگہ جیل ہے ، اگر نواز شریف جیل جا سکتے ہیں تو ثاقب نثاربھی جیل جاسکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا کہ جب اس قسم کے الیکشن ہوں گے تو ایسی ہی اسمبلیاں ملیں گی بیان حلفی سے سامنے آگیا ہے کہ عدلیہ کمپرومائز ہوئی ہے ،ہم قانونی کارروائی کیلئے بھی مشاورت کریں گے ، اس کا واحد حل نئی اسمبلی اور نئے انتخابات ہیں ۔دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے صدرشہبازشریف نے اپنے ٹویٹ میں کہا سازش بے نقاب ہوگئی ، سچائی منکشف کرنے کا اللہ تعالٰی کا اپنا طریقہ ہے ،اس سچائی کا ظہور عوام کی عدالت میں نوازشریف اور مریم نواز کی بے گناہی کا ایک اور ثبوت ہے ،مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید نے کہا ایک سابق چیف جسٹس کا حلفیہ الزام ثاقب نثار کے خلاف کیا آیا، رونا وزیر اطلاعات کو پڑگیا ہے ۔ مریم اورنگزیب نے کہا نواز شریف اور مریم نواز کی بے گناہی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی۔رانا ثنا اللہ نے کہا اعلیٰ عدلیہ ثاقب نثارکوقانون کے کٹہرے میں طلب کرے ، سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا اب نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف مقدمات ختم ہونے چاہئیں۔دریں اثنا اپوزیشن نے گلگت بلتستان کے سابق جج کے انکشافات پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہنگامہ کیا ، ایوان بالا میں اپوزیشن نے علامتی واک آئوٹ کیا، قبل ازیں سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا سابق چیف جسٹس جی بی نے عدالتی فیصلوں کا پول کھول کر رکھ دیا،یہ اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج کا بیان حلفی ہے اس پر کمیشن قائم ہونا چاہیے ۔ قومی اسمبلی میں ن لیگ نے سابق جج کے بیان پر بحث کا مطالبہ کردیا،خواجہ آصف نے کہا 2018 الیکشن پر سوالیہ نشان بنتے ہیں،ایک پارٹی کو جتوانے کیلئے ناکردہ گناہوں پر سزا سنائی گئی ۔اس معاملے کا نوٹس لیکر بحث ہونی چاہیے ،وفاقی وزیر مراد سعید نے جواب میں کہا جس شخص کا حوالہ دے کر بیانیہ بنا رہے ہیں اسے نوازشریف نے جج لگایا، وفاقی وزیر اسدعمر نے کہا ایک وقت تھا جب جج پوچھتے تھے میاں صاحب کس کو کتنی سزا دینی ہے ، عمران خان سیاستدانوں کا مک مکا ختم کرنے آیا ہے ،جے یو آئی (ف) کے پارلیمانی لیڈر اسعد محمود نے کہا یہ پہلا واقعہ نہیں ججز کا ضمیر متواتر جاگ رہا ہے ، بابر اعوان نے کہا آئین کے آرٹیکل 67 کی ذیلی شق 2 کے تحت کسی زیر سماعت کیس پر بحث نہیں ہوسکتی ،خواجہ آصف نے جن کیسز اور ججز کا نام لیا ہے انہیں کارروائی سے حذف کیا جائے ۔مزید برآں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے شیخ رشید ، شہباز گل کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لیگی رہنماؤں نے پھر عدلیہ پر تنقید کی، اسلام آباد ہائیکورٹ خواجہ آصف اور شاہد خاقان کی گفتگو کا نوٹس لے ، عدلیہ پر حملہ کرنا، ججوں پر الزامات لگانا، ویڈیوز بنانا ن لیگ کی تاریخ رہی ہے ، چیف جسٹس کے سوموٹو نوٹس کا خیرمقدم کرتے ہیں،انہوں نے سابق جج کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کتنا مضحکہ خیز شگوفہ ہے چیف جسٹس آف پاکستان میرے پاس آئے ، ہم چائے پی رہے تھے ، اچانک چیف جسٹس کو خیال آیا انہوں نے فون اٹھایا کہ فلاں جج کو فون کردیں،بدقسمتی سے کسی جج کا نام لے کر اخبار نے اتنی بڑی ہیڈ لائن لگا کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا،اخبار نے یہ چیک کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ جس جج کا نام لے رہے ہیں وہ جج بینچ میں شامل ہی نہیں ، ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سوموٹو نوٹس لینے کے بعد پریس کانفرنس کی اور پھر عدالتوں کا سکینڈل بنانے کی کوشش کی، اسلام آباد ہائیکورٹ کو ان دونوں حضرات کو بھی اپنے سوموٹو نوٹس میں بلانا چاہئے ، فواد چودھری نے ٹویٹ میں کہا بیوقوفانہ کہانیاں اور سازشی تھیوریاں گھڑنے کے بجائے یہ بتایا جائے کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے پیسے کہاں سے آئے ؟ مریم نواز کی اربوں کی جائیدادیں سامنے آ چکی ہیں، ان کا جواب دیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں