کمشنر کراچی ساری مشینری لیجائیں اور نسلہ ٹاور گرائیں: چیف جسٹس

کمشنر کراچی ساری مشینری لیجائیں اور نسلہ ٹاور گرائیں: چیف جسٹس

آپ کوشش چھوڑیں، سیدھا جیل جائیں، چیف جسٹس کا کمشنر پر اظہار برہمی، الباری ٹاور کیس میں سعید غنی طلب ، تمام پارک، کھیل کے میدان بحال کیے جائیں،دفاعی اراضی کا مقصد تبدیل نہیں کیا جا سکتا، عدالت،سیکرٹری دفاع کو نوٹس

کراچی (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل لارجر بینچ نے رفاہی پلاٹوں اور پارکوں پر قبضے کے کیس کی سماعت کے دوران ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی کو تمام پارکس اور کھیل کے میدانوں کو بحال کرنے اور وہاں سے تمام تعمیرات کو ختم کر کے 2 ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی، جب کہ نسلہ ٹاور نہ گرانے پر کمشنر کراچی پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کمشنر کراچی ساری مشینری لیجائیں اور نسلہ ٹاور گرائیں ۔ سماعت کے موقع پر ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب موجود تھے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مرتضیٰ وہاب صاحب، کراچی میں چار جھیلیں ہوا کرتی تھیں، یہ سب قدرتی جھیلیں تھیں۔ مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ جھیل پارک میں ایک جگہ فٹ بال گراؤنڈ بنایا گیا ہے اور جھیل پارک کے ایک حصے میں پودے لگائے گئے ہیں۔ درخواست گزار امبر علی بھائی نے عدالت کو بتایا کہ پونی جھیل ختم کر دی گئی، جب کہ فیروز آباد اور طارق روڈ کے اطراف جھیلوں پر ہاؤسنگ سکیمز بنا دی گئی ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان جھیلوں کا پانی کہاں گیا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین کا کہنا تھا کہ پانی کا لیول ختم ہونے سے جھیلیں ختم ہوئیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پھر زمین تو محفوظ ہونی چاہیے تھی۔ سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں ایک شخص بول پڑا کہ جھیل پارک کے اطراف ساری دکانیں بنا دی گئی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میونسپل کمشنر صاحب آپ آ جائیں، بتائیں یہ کیا ہو رہا ہے ؟ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جھیل پارک سے دور دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جھیل پارک کے اطراف کتنا خوب صورت ایریا تھا ، غیر ملکی آ کر یہاں رہتے تھے ، کیا حال کر دیا، مرتضیٰ صاحب کراچی کی جھیلوں کو کیسے بحال کریں گے ؟۔ جس پر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کسی ماہر سے خدمات لیے کر رہنمائی کر سکوں گا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا شہر کے مسائل کا تدارک کیسے ہو گا، یہ بتائیں۔ یونیورسٹی روڑ پر تو پارکس ہونے چاہیں، شارع فیصل پر لائٹ چلانے کا کام کس کا ہے ، شارع فیصل پوری اندھیرے میں پڑی ہوتی ہے ۔ جس پر مرتضی ٰوہاب کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں شارع فیصل آتی ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ناتھا خان سے لے کر آگے پورا اندھیرا ہوتا ہے ، کنٹونمنٹ بورڈ والے بھی تو اسی پاکستان میں رہتے ہیں، ان پولز پر تو لائٹس ہی نہیں لگیں، پولز پر جھنڈے لگے ہوتے ہیں، برے لگتے ہیں، جھنڈے لگانا ہے تو پاکستان کے جھنڈے لگائیں۔ جس پر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ میں کوشش کر رہا ہوں مگر کنٹونمنٹ ایریاز کے مسائل ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام کنٹونمنٹ بورڈز کے حکام کو بلا لیتے ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ پارکوں اور میدانوں کو بحال کر کے محفوظ بنایا جا ئے ، جب کہ پارکوں اور میدانوں میں داخلے کی کوئی فیس نہیں ہوگی اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تمام پارکوں میں داخلہ فری کیا جائے ۔عدالت نے کورنگی جام صادق علی پل سے متصل عمارتوں کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ جن پارکوں پر قبضے ہیں اس کو کے ڈی اے فوری ختم کرائے اور3 ماہ میں نیو کراچی میدان مکمل بحال کیا جائے ۔ علاوہ ازیں بدھ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد ،جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل بینچ نے نسلہ ٹاور انہدامی کیس کی سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ نے نسلہ ٹاور کو فی الفور گرانے سمیت تجوری ہائٹس کو بھی مسمار کر کے رپورٹس پیش کرنے کا حکم دیا۔ سماعت کے موقع پر کمشنر کراچی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ و دیگر حکام پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا کمشنر کراچی محمد اقبال میمن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کمشنر کراچی مسلسل توہین عدالت کر رہے ہیں اور کیا یہ کمشنر کہلانے کے لائق ہیں، آپ کو یہاں سے سیدھا جیل بھیجیں گے ۔عہدہ چھوڑ دیں، یہ آپ کے کرنے کا کام نہیں۔ آپ سمجھتے ہیں وقت نکال لیں گے اس طرح؟۔ چیف جسٹس نے کمشنر سے استفسار کیا کہ کمشنر صاحب عدالت نے جو کام کرنے کو آپ سے کہا تھا وہ ہوا یا نہیں۔ جس پر کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں عدالت سے رہنمائی درکار ہے ۔ چیف جسٹس نے کمشنر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ سیدھی بات کریں، کتنی عمارتیں گرائیں بتائیں؟ نسلہ ٹاور کی عمارت گرائی ہے یا نہیں؟، کیا آپ کا یہاں سے جیل جانے کا ارادہ ہے ؟۔ کمشنر نے درخواست کی کہ میری بات سنیں،میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ جس پر جسٹس قاضی محمد امین کا کہنا تھا کہ آپ کے خلاف مس کنڈیکٹ کی کارروائی ہو گی، آپ کو معلوم ہے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔ کمشنر نے چیف جسٹس سے بات سننے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے نسلہ ٹاور پر آپریشن کا آغاز کر دیا ہے ۔جسٹس قاضی محمد امین نے کمشنر سے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنے گھر میں کھڑے ہیں، یہ طریقہ ہے عدالت سے بات کرنے کا، زیادہ سمارٹ بننے کی کوشش نہ کریں۔ اس موقع پر کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ سر میں عمارت گرانے کی کوشش کر رہا ہوں۔سر میں آپ کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سمجھ رہے ہیں، آپ نہیں سمجھ رہے ، صرف ٹائم پاس کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا تجوری ہائٹس کو بھی اب تک مسمار نہیں کیا گیا۔ جس پرکمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ تجوری ہائٹس کو گرانے کا کام جاری ہے ۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ کمشنر کراچی ابھی جائیں اورنسلہ ٹاور کو گرائیں، کراچی کی ساری مشینری لے کر نسلہ ٹاور کو گرانا شروع کر دیں، جب کہ تجوری ہائٹس کو بھی آج گرا کر رپورٹ پیش کریں۔ بینچ نے دفاعی مقاصد کے لیے مختص اراضی پر کمرشل سرگرمیوں سے متعلق درخواست کی بھی سماعت کی۔ دوارن سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے کہ کس قانون کے تحت دفاعی اراضی پر کمرشل کاروبار ہو رہا ہے ۔ سماعت کے موقع پر ڈائریکٹر ملٹری لینڈ عدالت میں پیش ہوئے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ دفاعی زمین پر کیسے کمرشل تعمیرات کر رہے ہیں آپ لوگ؟، منافع بخش کام شروع کر دیئے آپ لوگوں نے ، ڈیفنس لینڈ پردفاعی اداروں کا کاروباری سرگرمیاں ، سینما چلانا تو کام نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پی این ایس نے بھی ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دیں۔ بعدازاں عدالت عظمیٰ نے ڈائریکٹر ملٹری لینڈ سے جامع رپورٹس طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے کس قانون کے تحت دفاعی اراضی پر کمرشل کاروبار ہو رہا ہے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے تحریری فیصلہ لکھوا دیا۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع، اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، تمام کنٹونمنٹس بورڈ زکے چیف ایگزیکٹوز کو نوٹس جاری کر دیئے اور ڈائریکٹر ملٹری لینڈ سے 26 نومبر تک جامع رپورٹس طلب کر لیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے دفاعی اراضی پر کمرشل کاروبار خلاف آئین اور عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی ہے ، دفاعی اراضی کا مقصد تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔دریں اثناء سپریم کورٹ کے اسی بینچ نے بہادرآباد میں 16 منزلہ الباری ٹاور کی تعمیر کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پارک کی زمین پر غیر قانونی عمارت بنائی گئی، عدالتی نوٹس کے بعد بھی تعمیرات نہیں روکی گئیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بلڈر کون ہے اس کا ؟ کون بنا رہا ہے یہ ؟ وکیل نے بتایا محمد توفیق اور محمد سعید نامی بلڈرز نے عمارت تعمیر کی ۔ چیف جسٹس نے عمارت کی تصویر عدالت میں لہرا دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے بتائیں، سعید غنی صاحب کہاں ہیں ؟؟ وہ کہتے ہیں ایسی عمارتیں بنیں گی، بلائیں انہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہتے ہیں عہدہ چھوڑ دوں گا مگر گراؤں گا نہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کب چھوڑیں گے وہ عہدہ یہ تو بتائیں؟ عدالت نے سعید غنی کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ بعد ازاں عدالت عظمٰی نے ایس ایچ او نیو ٹاؤن کے ذریعے بلڈر کو نوٹس تعمیل کرانے کا حکم دے دیا۔ مزید برآں سول ایوی ایشن اراضی پر کلب بنانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سول ایوی ایشن کلب ختم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے جگہ میس کے طور پر استعمال کی اجازت دے دی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں