دوماہ میں دہشتگردی کے واقعات بڑھنے کا خدشہ :وزیر داخلہ

دوماہ میں دہشتگردی کے واقعات بڑھنے کا خدشہ :وزیر داخلہ

اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک )وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ آئندہ دو ماہ میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گرد دوبارہ سرگرم ہوئے ہیں، سیز فائر کی خلاف ورزی کے بعد ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا دروازہ تقریباً بند ہو چکا ۔

بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مذاکرات کی شرائط پوری ہونا ممکن نہیں تھیں۔انہیں سرحدی باڑ پر بھی اعتراض تھا، وہ پاکستان کی عدالتوں میں سزا کاٹنے والے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہے تھے ، ان کے جرائم اور ان پر لاگو قوانین یکسر مختلف ہیں، ٹی ٹی پی کے مطالبات نہیں مانے جا سکتے تھے کیونکہ ایسے خطرناک قیدیوں کی رہائی ممکن ہی نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان پل کا کرادار ادا کر رہے ہیں اور ٹی ٹی پی کو کارروائیوں سے باز رکھنے کیلئے سمجھا رہے ہیں، ان کی کمٹمنٹ ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو نے دیں گے لیکن ٹی ٹی پی والے کسی نہ کسی طرح سرحد میں داخل ہو جاتے ہیں اور دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔

طالبان سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی پر افغان طالبان کا بھی زور نہیں چلتا، داعش سے بھی افغان طالبان کی لڑائی ہے ، اس دوران ٹی ٹی پی کے کچھ لوگ بھی داعش میں شامل ہو ئے ہیں،آئندہ دو ماہ میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے تاہم دہشت گردی کی اس تازہ لہر پر قابو پا لیا جائے گا،ملک کے مختلف حصوں، خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد تنظیموں کے سلیپرز سیلز ایک بار پھر سرگرم ہوئے ہیں، پنجاب اور سندھ میں سی ٹی ڈی یہ معاملات دیکھ رہی ہے ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں یہ ذمہ داری فوج کے پاس ہے ، چینی ورکرز کی حفاظت کا ذمہ بھی فوج نے لیا ہوا ہے ۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیراعظم اور فوجی قیادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، ملک کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک صفحے پر ہوں،فوجی قیادت نے منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا ہے ۔حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور رائے میں فرق تو ہو سکتا ہے ،معمولی اختلاف بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ایک پیج پر نہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کرپشن اور احتساب کے معاملے پر ڈٹے ہوئے ہیں، کرپشن کے الزام پر کئی افراد کو پارٹی اور عہدوں سے فارغ بھی کیا۔

عمران خان اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کر سکتا،شہزاد اکبر سے وزیر اعظم کی ناراضی اور ان کے استعفیٰ کی وجہ محض نواز شریف یا شہباز شریف کو واپس لانا ہی نہیں بلکہ ان سے لوٹی ہوئی دولت بھی ہم واپس نہیں لا سکے ، یہ تسلیم کرتا ہوں کہ کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے عدالتوں میں مقدمات لے جاتے وقت شاید درست طریقے سے تیاری نہیں کی گئی،عدالتوں نے کرپشن سے متعلق متعدد فیصلوں میں طویل مدت کے لیے حکم امتناعی دیے ہوئے ہیں۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کرپشن اور احتساب کے معاملے پر ڈٹے ہوئے ہیں، احتساب عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ تھا مگر اس میں ہمیں وہ کامیابی نہیں ملی جو ملنی چا ہئے تھی۔ نواز شریف کی واپسی سے متعلق وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ واپس آ جائیں، انہیں جانے کی اجازت حکومت نے ہی دی جو بڑی غلطی تھی۔

انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ بہت کوششوں کے باوجود اسحاق ڈار کی واپسی ممکن نہیں بنا سکے ۔شہزاد اکبر کے استعفے سے متعلق شیخ رشید کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے ملازمین کے اکاؤنٹس سے اربوں روپے نکلے ، قائد حزب اختلاف پر 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے لیکن ہم ان کے پیسے بھی نہیں لا سکے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں