نیا بل حکومت کو توہین عدالت سے بچانے کی چھتری
لاہور (رپورٹ محمداشفاق )پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخیں منسوخ کرنے کے خلاف سماعت آج ہوگی ،سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں وفاقی حکومت کی کیا حکمت عملی ہوگی ؟حکومت نے چیف جسٹس پاکستان کے ازخود نوٹس کے اختیارات ،بینچز کی تشکیل ،از خود نوٹس سے متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دینے سے متعلق نئے قانون کا بل منظور کرکے صدر پاکستان کو دستخط کے لیے ارسال کردیا یہی وہ حکومتی کارڈ ہے۔
جس کی وجہ سے حکومت سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا الیکشن کی تاریخ سے متعلق حکم ماننے سے انکاری ہے ا ور فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کررہی ہے اس قانون نے حکومت کو ایسی چھتری فراہم کردی ہے جو حکومت کو توہین عدالت کی کارروائی سے بچانے میں موثر کردار ادا کرے گا۔ حکومت نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطابندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل فل بینچ کے روبرو یہ مطالبہ کیا تھا کہ الیکشن کے معاملہ پر فل کورٹ تشکیل دیاجائے لیکن گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے یہ استدعا مسترد کردی تھی جس کے بعد ایک نئے بحران نے جنم لے لیا اور پی ڈی ایم نے فل کورٹ نہ بنانے کی صورت میں اس کیس کی سماعت کا بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ اس حوالے سے بعض حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اب تو وزیراعظم او دیگر سیکرٹریز کو عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس ساری صورتحال کے پیش نظر وفاقی حکومت نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیارات کے حوالے سے نیا قانون بنانے کا فیصلہ کیا اور یوں نئے قانون سے متعلق بل قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد دستخط کے لیے صدر پاکستان کو ارسال کردیا جو صدر کی جانب سے دستخط نہ کرنے کے باوجود طریقہ کار کر مطابق 20اپریل سے نافذ العمل ہوجائے گا ۔
نئے قانون کے مطابق از خود نوٹس کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا اور یوں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف حکومت30 روز میں اپیل کرے گی اس اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی فیصلہ کرے گی ۔کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود شامل ہوں گے ۔کمیٹی اکثریتی فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی اور اس طرح متاثرہ فریق یعنی حکومتی اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے ایسے 5رکنی بینچ کی منظوری دے گی کہ اس بینچ میں جن جج صاحبان نے متعلقہ کیس سے متعلق پہلے فیصلہ نہ کیا ہو وہ جج صاحبان اس بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے اور یوں حکومتی اپیل پر 5رکنی بینچ کمیٹی تشکیل دے گا اور پھر نیا 5رکنی بینچ حکومتی اپیل پر سماعت کرے گا اور پھر وہ فیصلہ حتمی ہوگا ، اس ساری صورتحال پر وکلا تنظیمیں گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ،صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہاکہ عدلیہ پر حملہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے ۔ پورے ملک کے وکلا چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے ہیں ، صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق اے خان نے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیارات سے متعلق نئے قانون کو چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ۔انہوں نے کہاکہ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو آئین سے متصادم ہو ،چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیارات سے متعلق ممکنہ قانون سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر 2023 بھی آئین سے متصادم ہے ۔