سیاسی کارکنوں کے ذریعے الیکشن میں کامیابی کی منزل مشکل

سیاسی کارکنوں کے ذریعے الیکشن میں کامیابی کی منزل مشکل

(تجزیہ: سلمان غنی) سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا کہ ان کی جماعت کو الیکٹیبلز کی ضرورت نہیں، ووٹ بینک اتنا بڑا ہے کہ کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا ، سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اونچی ہوائوں میں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی بڑی پرواز سے روک نہیں سکتا ، کیا زمینی حقائق یہی ہیں ؟ ۔

 کیا نو مئی کے واقعات کے بعد ان کی مقبولیت اور جماعتی حیثیت متاثر نہیں ہوئی ، جب انتخابات ہوں گے تو وہ میدان مار لیں گے !اس کا تجزیہ ضروری ہے ۔ 2011کے بعد ان کی سیاست اور جدوجہد ایک خاص تھپکی اور سگنل کا حصہ تھی اور ان کی جماعت کی اڑان میں جہاں اور بہت سے عوامل تھے ، وہاں اس میں جہانگیر ترین فیکٹر بھی اہم تھا ،جس کے تحت متعدد سابق وفاقی وزرا سمیت دیگر نے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی ،جہانگیر ترین کی تحریک پر ہی چیئرمین پی ٹی آئی نے نظریاتی کارکنوں کی جگہ  الیکٹیبلز  کو اکامو ڈیٹ کرنا شروع کیا تھا ۔ اس کے نتیجہ میں پختونخوا میں ان کی حکومت بنی ، قومی اسمبلی میں بھی ان کے تین درجن سے زائد اراکین اسمبلی اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے تھے ، نواز شریف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات میں بھی بڑی وجہ ان کیلئے مخصوص تھپکی اور الیکٹیبلز کو توڑ کر ان کے ساتھ شامل کرنا تھا ۔ پرویز الٰہی نے بھی اس وقت کے آئی ایس آئی چیف پر الزام لگایا تھا کہ یہ ہمارے مضبوط امیدواروں کو توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کرانے کے مرتکب ہو رہے ہیں ، 2018 کے انتخابات کو تو تحریک انصاف کو برسراقتدار لانے کیلئے کھلے طور پر ایک خاص بندوبست کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے ۔

تمام تر کوششوں کاوشوں کے باوجود تحریک انصاف نہ تو مرکز میں سادہ اکثریت حاصل کر سکی ، نہ ہی پنجاب میں انہیں مطلوبہ اراکین مل سکے ۔ پھر جہانگیر ترین کا طیارہ حرکت میں آیا اور مرکز اور پنجاب میں منتخب اراکین کو ساتھ ملانے کیلئے ان کی جائز ناجائز شرائط قبول کرتے ہوئے حکومت سازی کا عمل ممکن بنایا گیا ،بعد ازاں ان کے خلاف عدم اعتماد کا مرحلہ آیا تو ساتھ ملائے جانے والے چھوڑتے نظر آئے ،چیئرمین پی ٹی آئی نے اقتدار سے نکل کر بھی خاموشی اختیار نہ کی ، الیکٹیبلز کی اگلی منزل کونسی ہے اس کا تو علم نہیں ،لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کا دعویٰ ایک خاص کیفیت کا آئینہ دار ہے وہ دراصل اپنے ساتھ کھڑے رہنے والوں کو حوصلہ دیتے نظر آ رہے ہیں بلاشبہ چیئرمین ابھی غیر مقبول تو نہیں ہوئے ،ان کا ووٹ بینک بھی کھڑا ہے لیکن پاکستان کی سیاست میں ووٹ بینک سے زیادہ قبولیت کسی اور چیز کی ہوتی ہے ۔ ماہرین کا اس ا مر پر اتفاق نظر آتا ہے کہ ووٹ بینک کے باوجود ان کی حکومت کے امکانات بہت کم ہیں جہاں تک الیکٹیبلز کی اہمیت کا سوال ہے تو ابھی پاکستانی سیاست اس نہج پر نہیں پہنچی کہ انتخابی عمل میں کوئی جماعت سیاسی کارکنوں کو ٹکٹ دے کر کامیابی کی منزل تک پہنچ سکے ، وہ ایسے بیانات دے کر اپنا ووٹ بینک محفوظ بنانا چاہتے ہیں ، کیا وہ یہ ممکن بنا پائیں گے ؟ ، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے ،ان کی جماعت کو درپیش صورتحال اس کی عکاس ہے اور ابھی تک پاکستان میں سیاست اور سیاسی جماعتیں ریاست کے مقابلہ میں اتنی مضبوط نہیں ہوئیں ، حکومتوں اور ریاستی معاملات پر دسترس رکھنے والے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ پاکستان نے ایک ذمہ دار ملک کے طور پر آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے ابھی ایسا ممکن نہیں کہ یہاں شخصیات ، سیاسی دبائو کو بروئے کار لا کر خود کو بالادست بنا پائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں