پاکستان سے ’’ڈنکی‘‘لگاکر یورپ پہنچانے کا نیٹ ورک

پاکستان سے ’’ڈنکی‘‘لگاکر یورپ پہنچانے کا نیٹ ورک

گوجرانوالہ (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان سے 'ڈنکی' لگاکر یورپ پہنچانے کا نیٹ ورک کئی برس سے چلایا جارہا ہے ،مقامی ایجنٹ غیرقانونی راستوں سے سرحد پار کرانے کے لئے 'ڈنکی' لگانے کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

اس طریقہ کار کے تحت پہلے ایجنٹ کا کام پاکستان سے لیبیا اور دوسرے کا آگے اٹلی پہنچانا ہوتا ہے ۔ وی اواے کے مطابق ویزا لگوا کر دبئی اور وہاں سے لیبیا پہنچایا جاتا ہے ، پہلے مرحلے میں ایجنٹ پانچ لاکھ روپے وصول کرتے ہیں ، لیبیا سے اٹلی پہنچانے کے 1500 سے 2000ڈالرز لیے جاتے ہیں۔ یہ رقم پاکستان میں موجود ایجنٹ ، لیبیا کے ایجنٹ کو ہنڈی کے ذریعے بھجواتے ہیں ۔گجرات کا رہائشی ایک ایجنٹ جو دس برسوں سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کی 'ڈنکی' لگوانے کا کام کر رہا ہے نے بتایاایران کے راستے بارڈر کراسنگ کا دور اب گزر گیا ۔ وہاں ہلاکتیں 100 فی صد ہوگئی تھیں اور کئی برسوں سے کوئی ایک بھی زندہ سلامت یورپ نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ لیبیا سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچنا بہتر روٹ ہے اور اگر ایجنٹ زیادہ بندے بٹھانے کی لالچ نہ کرے تو اس کا رزلٹ 100 فی صد ہے ۔ایجنٹ نے اپنی شناخت اور نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ڈنکی لگانے سے متعلق بتایا کہ کس طرح غیرقانونی بارڈر کراسنگ کا کام زمینی راستوں سے اب سمندری راستوں پر منتقل ہوچکا ہے ۔ اس کے بقول اس کام میں رسک کم ہے اور ایف آئی اے سمیت پاکستان کے اداروں کا عمل دخل بھی نہیں ہوتا۔

ایجنٹ محمد وقار (فرضی نام)نے بتایا 80 اور 90 کی دہائی میں کوئٹہ کے راستے ایران پھر ترکیہ اور وہاں سے یونان یا کسی اور یورپی ملک پہنچنا کافی آسان تھا۔ بڑی تعداد میں لڑکے اس راستے سے یورپ پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے ۔ نائن الیون کے بعد جب پوری دنیا میں بارڈرکراسنگ پر سختیاں شروع ہوئیں تو اس کا اثر ان ممالک پر بھی پڑالیکن اگلے آٹھ، دس برسوں تک بیش تر لوگ بارڈر کراسنگ میں کامیاب ہوئے تاہم اس دوران بڑی تعداد میں لوگوں نے واپس آنا شروع کردیا کیوں کہ انہیں ملک بدر کیا جانے لگا تھا۔ایجنٹ نے بتایا چند برس قبل صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب غیرقانونی راستوں سے یورپ جانے والوں کو گرفتار کرکے ڈی پورٹ کرنے کے بجائے انہیں دیکھتے ہی گولی مارنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایران، ترکیہ اور یونان کی سکیورٹی فورسز کی ایسی کارروائیوں کے بعد پاکستان سے یورپ میں قیام کی خواہش سے جانے والوں کی لاشیں آنا شروع ہوگئیں۔محمد وقار نے بتایا ان واقعات کے بعد پاکستان میں بھی ایجنٹوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں جس کی وجہ سے یہ کام زیادہ محفوظ نہیں رہا تھا۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری کا خطرہ بھی منڈلاتا رہتا تھااس کے باوجود والدین کی خواہش رہتی تھی کہ ان کے بچوں کو 'ڈنکی' لگوائی جائے ۔زمانے کے بدلتے حالات دیکھ کر ایجنٹوں نے بھی اپنے روٹ تبدیل کرلیے ہیں اب انہوں نے بھی پیدل ڈنکی لگوانے کے بجائے کشتی کے ذریعے سفر شروع کردیا ۔ایجنٹ کے مطابق نیا روٹ نسبتاً محفوظ ہے اور اگر ایجنٹ لالچ نہ کرے تو اس ڈنکی میں رزلٹ 100 فی صد ہے اور جان کا خطرہ بھی کم ہے ۔انہوں نے بتایا ایک لڑکے کو پاکستان سے یورپ پہنچانے کے مرحلے میں دو ایجنٹ کام کرتے ہیں پہلے ایجنٹ کا کام لیبیا پہنچانا ہوتا ہے ۔ دوسرا ایجنٹ لیبیا سے آگے اٹلی پہنچانے کا ذمے دارہوتا ہے ۔پہلا ایجنٹ لڑکوں کا دبئی کا ویزہ لگوا کر انہیں وہاں پہنچاتا ہے ۔ اس کے بعد آگے لیبیا کا ویزہ لگوایا جاتا ہے ،پہلے مرحلے کے پانچ لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔

اس نے بتایالیبیا میں الگ سے ایجنٹ موجود ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہماری پہلے سے بات طے ہوتی ہے اور ہم نے انہیں لڑکوں کی تعداد اور رقم کی ادائیگی کے بارے میں پیشگی آرڈر دیا ہوا ہوتا ہے ۔ایجنٹ نے بتایا لیبیا سے اٹلی پہنچانے کے 1500 سے 2000ڈالرز لیے جاتے ہیں۔ یہ رقم پاکستان میں موجود ایجنٹ ، لیبیا کے ایجنٹ کو ہنڈی کے ذریعے بھجواتے ہیں اور رقم وصول ہونے کے بعد ہی وہ بھجوائے گئے لڑکے کو کشتی پر بٹھاتے ہیں۔انہوں نے بتایا رازداری ہمارے کام کا اولین اصول ہے ۔ لیبیاکا ایجنٹ کبھی ہمارے بھجوائے گئے لڑکے کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس کو کتنے ڈالرز ملے ہیں۔ پاکستان میں موجود ایجنٹ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور زیادہ منافع حاصل کرتے ہیں۔ایجنٹ نے مثال دیتے ہوئے بتایا حال ہی میں جو کشتی الٹی اس میں گجرات کے لڑکوں کی جانیں گئی ہیں، ان سے 20، 20 لاکھ روپے میں معاملہ طے کیا گیا تھا۔ لیبیا سے آگے اٹلی پہنچانے والے ایجنٹوں کا دعویٰ ہوتا ہے انہوں نے فی کشتی کے حساب سے بحری ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں سے معاملات طے کیے ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کو یہ لالچ ہوتا ہے کہ وہ زیاہ سے زیادہ بندے بٹھائیں تاکہ کم کمیشن میں زیادہ لوگوں کو سمندری ڈنکی لگوائی جا سکے ۔اسی لالچ کی وجہ سے کشتی ڈوبنے جیسے واقعات میں جانیں جاتی ہیں۔ایف آئی اے کے انسداد انسانی سمگلنگ ونگ کے ایک افسر محسن وحید بٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ملکوں کی سرحدوں پر اب وہ صورتحال نہیں جیسی 15، 20 سال پہلے تھی۔تفتان بارڈر پر سکیورٹی فورسز کا سخت پہرہ ہے اس کے علاوہ ایران میں ان کی سکیورٹی فورسز کی پالیسی زیرو ٹالرنس کی ہے ۔ ترکیہ میں بھی کافی سختی ہوچکی ہے اور جو لوگ قانون کی گرفت میں آ جائیں ان کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے ۔گجرات کے مقامی صحافی عبدالسلام مرزا کا کہنا ہے گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے ہر دوسرے گاؤں میں ایجنٹ موجود ہیں اور جو لڑکا 15، 16 سال کی عمر کو پہنچتا ہے وہ یورپ کے خواب دیکھنے لگتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈنکی لگانا گجرات اور منڈی بہاؤالدین کی شناخت بن چکا ہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں