15مئی کو وفاقی حکومت کی مدد سے پاور شو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ:سپریم کورٹ
اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں سابق حکومت کی جانب سے تین ججز پر اعتراض کو مسترد کردیا اور قرار دیا کہ 15مئی کو وفاقی حکومت کی مدد سے پاور شو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا۔
سپریم کورٹ نے 6 جون کو حکومتی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کردیا، 32صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریرکیا، تحریری فیصلے میں آڈیو لیکس کے بیک گرائونڈ کے طور پر پنجاب اور کے پی کے کے الیکشن پرا سس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے دو ججو ں نے الیکشن میں تا خیر کے خلاف سوموٹو لینے کیلئے چیف جسٹس پاکستان کو نو ٹ بھجوایا اور اسی دوران ایک ٹوئٹر اکائونٹ indibellنے تین آڈیوز جاری کر دیں جن میں پرویز الٰہی کے ساتھ سپریم کورٹ کے جج مظاہر علی اکبر نقوی ،سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری اورایک ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ارشد جو ئیہ کے ساتھ مبینہ گفتگو تھی جس کے دو ماہ کے عرصہ میں اسی ٹوئٹر اکائونٹ نے مزید آڈیو لیکس جاری کیں جن میں ایک چیف جسٹس کی خوش دامن کی بھی آڈیو تھی،حکومت نے ان\\\' لیکس \\\'کی ساکھ کی نشا ندہی کیے بنا ہی فوری طور پر ججو ں کو بدنام کر نے کیلئے ان آڈیو لیکس کی توثیق کر دی، حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے یہ موقف اپنایا کہ اس معاملے میں چیف جسٹس خود کو کیس سے الگ کر لیں کیو نکہ مفاد کا ٹکرائو ہے ،وفا قی وزرا نے پریس کانفرنسز بھی کرنا شروع کر دیں کہ عدالت موجودہ حکومت کے خلاف تعصب رکھتی ہے ،منتخب حکومت کے عہدیداروں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی میڈیا اور حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں بھی تو ہین کر نا جا ری رکھی، 19مئی کو وفا قی حکومت نے اس ضمن میں حتمی ایکشن لیا اور انکوائری آف کمیشن ایکٹ 2017کے تحت تین رکنی کمیشن تشکیل دے دیا۔ حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن تشکیل دیا لیکن اس کمیشن کی تشکیل سے پہلے حکومت نے چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت نہیں کی،جس کے بعد 22 تاریخ کو کمیشن نے اپنا پہلا اجلاس منعقد کیا۔
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جب صوبے میں اسمبلی کی تحلیل کے نو ے رو ز کے اندر الیکشن کرا نے کا حکم دیا تو اس حکم نا مے نے وفا قی حکومت کو نا را ض کر دیا اور اس نے اس فیصلے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ سپیکر کی پٹیشن کو چار تین کے تنا سب سے مسترد کیا جا چکا ہے ،اس بہانے سے وفا قی حکومت نے یکم ما رچ کے مختصر حکم نا مے کو ما ننے سے انکار کر دیا،عدالت نے نو ے رو ز کے اندر الیکشن نہ کرانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بھی مسترد کیا پھر بھی وفاقی حکومت نے عدالتی حکم نا مے کو نہ ما ننے کو چنااور چار میں سے دو صوبو ں میں ایسی غیر منتخب حکومت جاری رہی جس کا اختتام نہ نظر آنے والا تھا،جب سے آڈیو ریکارڈنگز کو لیک کیا گیا ، عدالتی فیصلو ں اور کارروائیوں کے سامنے وفا قی حکومت اور اس کی اتحادی جما عتو ں کی مزاحمت اب ججو ں کو دھمکیوں اور حملو ں تک پہنچ گئی،ججوں پر حملو ں کی ایک واضح مثال 15مئی کو سامنے آئی جب سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کو سن رہی تھی کہ حکومتی اتحادی جما عتو ں نے عدالت کے با ہر جا رحانہ احتجاج کیا جس میں چیف جسٹس کو سخت نتائج کی دھمکیاں دی گئیں،اس احتجاج کا سب سے متنازعہ پہلو یہ تھا کہ وفا قی حکومت نے اتحادی جما عتو ں کو سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج میں معا ونت کی جہا ں عمومی حالات میں ریڈ زون میں احتجاج کی اجا زت نہیں ہو تی، حکومتی مشینری نے احتجاجی جتھو ں کے دا خلے کی اجا زت دی اور بہتان لگانے والو ں کی حد تک خاموش تماشائی بن گئی،اس معا ملے میں قابل فہم یہ با ت ہے کہ اس احتجاج کا مقصد عدالت اور ججز پر حمایت میں فیصلے لینے کیلئے دبا ئو ڈالنا تھا یا دوسری صورت میں ججز کوئی فیصلے نہ کر یں،حکومت کا پاور شو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا،حکومت کا رویہ تعاون نہ کر نیو الا تھا اس کے باوجود کہ عدالتی فیصلو ں پر عمل نہ کر نے والوں کو سزا دینے کیلئے عدالت کے پاس آئینی اختیارات تھے عدالت نے اپنے فیصلو ں پر عمل نہ کر نے پر تحمل کا مظاہرہ کیا ،عدالت نے اس تحمل کا مظاہرہ الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کے دوران بھی کیا جس میں عدالت نے 14مئی کو الیکشن کرا نے کا حکم پاس کر رکھا تھا،عدالت نے الیکشن کمیشن کی اپیل کو 15مئی 2023کو سنااور عدم تعاون کا الزام لگا نے سے قبل انتظار کیا اور الیکشن کمیشن اور وفا قی حکومت کی جانب سے عمل نہ کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تین ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، ججز پر اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے جج کو ہراساں کرنے کیلئے دائر کی گئی، سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ وفاقی حکومت نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے مختلف چالوں اور حربوں سے عدالتی فیصلوں میں تاخیر کی اور عدالت کی بے توقیری کی،تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزرا نے مختلف مقدمات سننے والے ججز کیخلاف بیان بازی کی، وفاقی وزرا نے صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کیخلاف کیس میں عوامی فورمز پر اشتعال انگیز بیانات دئیے ، وزرا کے اشتعال انگیز بیانات کا مقصد وفاقی حکومت کے ایجنڈے کو تقویت دینا تھا، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے ان اقدامات کو انتہائی تحمل اور صبر سے برداشت کیا،سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ حکومت نے عدالت کی بے توقیری کا سلسلہ یکم مارچ 2023سے شروع کیا جب کہا گیا کہ چار تین سے فیصلہ مسترد ہوا، وفاقی حکومت چار اپریل کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کے پیچھے چھپ گئی، وفاقی حکومت کا مقصد اپنی بے عملی کو جواز دینا تھا، اس کے بعد پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون منظور کیا،عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی، وفاقی حکومت نے متعدد آئینی مقدمات سے ججز کو الگ کرنے کیلئے درخواستیں دائر کیں۔
آڈیو لیک کمیشن میں بھی ایسی ہی مفادات کا ٹکرائو اور تعصب جیسی بے سروپا بنیادوں پر درخواست دائر کی، آڈیو لیکس کیس کیخلاف اعتراض کی درخواست دائر کرنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بینچ سے الگ کرنا تھا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر آئین میں نتائج دئیے گئے ہیں، ججز پر اعتراضات کرنے والی حکومتی درخواست عدلیہ پر حملہ ہے ، ججز پر اعتراضات کرنے والی حکومتی درخواست مسترد کی جاتی ہے ، بینچ کے ججز پر اعتراض کیلئے دائر کی گئی متفرق درخواست مذموم مقاصد کیلئے دائر کی گئی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے جمعہ کو محفوظ کیا گیا مختصر فیصلہ سنایا،واضح رہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے رواں سال جون میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی خوشدامن، سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے درمیان ہونے والی گفتگو کی مبینہ آڈیو لیک ہونے پر نامزد چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے جوڈیشل کمیشن کو چیلنج کیا تھا۔ جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے ۔ سماعت کے موقع پر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی جانب سے بینچ میں شامل چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ وہ یہ درخواست نہ سنیں اور خود کو بینچ سے علیحدہ کر لیں۔ سابق حکومت کے اعتراضات پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کو محفوظ کر لیا تھا اور جمعہ 8 ستمبر 2023 کو 32 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے عدالت میں سنایا ہے ۔