تاریخ رقم، سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر، از خود نوٹس کے اختیارات نہیں رکھنا چاہتا: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حلف اٹھانے کے بعد پہلے روز سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کر کے تاریخ رقم کردی گئی،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023کیخلاف آئینی درخواستوں پر چیف جسٹس کی زیر سربراہی فل کورٹ بینچ نے سماعت کی۔
چیف جسٹس نے کہا ازخود نوٹس کے اختیار نہیں رکھنا چاہتا،سپریم کورٹ نے ریکوڈک کیس میں ہمالیہ جیسی بڑی غلطی کی ،ملک کو ساڑھے 6ارب ڈالر نقصان ہوا،پارلیمنٹ عوام کا منتخب ادارہ ،مارشل لا دور کے عدالتی فیصلوں کا پابند نہیں ،کوئی اور ہے تو ہو، قانون جب تک غلط ثابت نہ ہوقابل عمل ہے ،فیصلوں کا نہیں آئین کا تابع ہوں،57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہیں،پارلیمنٹ بہتری لانا چاہ رہی تو سمجھ کیوں نہیں رہے ؟قانون غلط ثابت کرنا چیلنج کرنیوالے کی ذمہ داری، ریفرنڈم نہیں کراسکتے ،پہلے ہم آئین ،قانون پھر رولز ،نوٹیفیکیشنز کے پابند ہیں ،ایسا اختیار نہیں چاہتا جس سے ملک کا نقصان ہو،سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی جبکہ فریقین کو 25 ستمبر تک عدالت کے سوالوں کے جواب کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کردی ،عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت کی تاریخ ساتھی ججوں سے مشاورت کے بعد دی جائے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شا مل تھے ،قبل ازیں چیف جسٹس کی زیر سربراہی میں فل کورٹ اجلا س ہوا جس میں سپریم کورٹ کی کارروائی لائیو نشر کرنے کی منظوری دی گئی،جس کے بعد سپریم کورٹ میں کورٹ روم نمبر ایک میں پانچ کیمرے لگا کر سماعت براہ راست دکھانے کا انتظام کیا گیا، چار کیمرے وزیٹرز گیلری اور ایک کیمرہ ججز ڈائس کے سامنے وکلا کے روسٹرم کے لئے نصب کیا گیا، فل کورٹ اجلاس میں چار نکاتی ایجنڈے کوزیربحث لایاگیاایجنڈے میں سپریم کورٹ میں زیر التوامقدمات کی ترجیحی بنیادوں پر سماعت پر غور کیاگیا،عدالتی کارروائی کی لائیوسٹریمنگ ،اورمقدمات کی سماعت کوموثر بنانے کیلئے گائیڈلائن پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی درخواستوں پر سماعت ساڑھے 9 بجے مقرر کی گئی تھی تاہم مقررہ وقت گزرنے کے باوجود 10 بجے بھی بینچ نہ پہنچ سکا۔
بعدازاں سماعت کیلئے ساڑھے گیارہ بجے کاوقت مقررکیاگیا۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی، تاخیرکی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے ، ہم فل کورٹ میٹنگ میں تھے ، ہم نے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر سپریم کورٹ کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے ، نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں۔ وکیل خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کیلئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہم نے فل کورٹ بنا دیا ہے ، ہم میں سے کچھ لوگوں نے کیس پہلے سنا کچھ نے نہیں سنا، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے ، ہمیں مناسب یہی لگا کہ فل کورٹ بینچ بنایا جائے ،خواجہ طارق رحیم نے دلائل شروع کئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ کو سننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، پارلیمنٹ اومنی پوٹینٹ ہے کا لفظ قانون میں کہیں نہیں لکھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا، فل کورٹ اگرقانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا؟ اسی ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہو گا، کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے ، پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں، آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا، آئین اور قانون دونوں کو الگ کیا گیا اس پر آپ کی کیا تشریح ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے ہیں اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بینچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور ؟ کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے ؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے ۔جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے ، پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے موکل کی کوئی ذاتی دلچسپی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں، خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے ، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے ، رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے ۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے ؟جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورز کو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آئینی مقدمات میں کم سے کم 5 ججز کے بینچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے ۔چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم کو ہدایت دی کہ جس شق پر آپ کو اعتراض ہے آپ کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس پر مطمئن ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو، آپ اس پر مطمئن نہیں کہ چیف جسٹس 2 سینئر ججز کی مشاورت سے فیصلہ کریں۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بے اختیار سا نہیں کردیا گیا؟خواجہ طارق رحیم کے جواب دینے پر چیف جسٹس نے پھر ٹوک دیا، انہوں نے ریمارکس دئیے کہ آپ پھر جواب دینے لگ گئے ، میں نے صرف کہا کہ ابھی صرف نوٹ کریں،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ خواجہ صاحب میں یہی سمجھا کہ آپ مطمئن ہی پرانے ماڈل سے ہیں، آپ مطمئن ہیں کہ چیف جسٹس اکیلے ہی روسٹرم کے ماسٹر ہوں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایکٹ کا سیکشن فور 1956 کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیا گیا، کیا اس قانون سازی کیلئے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا میرا بھی ایک سوال اپنی فہرست میں شامل کر لیں، اگر 17 جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں تو ٹھیک ہے ، پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے ؟ آپ کا پورا کیس یہی ہے نا؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے ، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے ، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کر سکتی ہے ؟چیف جسٹس نے کہا کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے 100 سوالات میں اصل مدعا تو گم ہو جائے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 199 کے اندر اپیل کا حق دیا گیا تھا تو کیا وہ غلط تھا؟ ایک فوجی آمر کے دور میں سپریم کورٹ رولز بنے وہ ٹھیک تھے ؟ اگر یہ قانون سازی غلط ہے تو وہ بھی غلط تھا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیکشن 5 کو آئین سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ایک اچھی چیز اگر غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے ،چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی، خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ یہ غیر آئینی ہے ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کر سکتی ہے ؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے ؟ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، میں تو پھر آپ کی درخواست 10 سال نہ لگائوں تو آپ کیا کریں گے ، آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے ،ریکوڈک کیس میں ملک کو 6.15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں نہیں لوں گا، آپ ابھی جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں۔خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ چاہیں تو ہمیں عدالتی سوالات کے تحریری جوابات جمع کروا سکتے ہیں۔وکیل خواجہ طارق رحیم کے بعد دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے مگر آرٹیکل 184/3 کے تحت دیکھیں گے ، آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا، اس بات سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟ پارلیمنٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا، باہر سے تو کوئی نہیں آیا، چیف جسٹس نے تو 2 سینئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے ۔جسٹس منصور شاہ نے کہا چیف جسٹس کے اختیار کو چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں، آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر کیلئے ہو سکتا ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ نے یہ کام کیا تو غلط اگر ہم کر دیں تو درست ہو گا،وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہو سکتا فل کورٹ کر سکتا ہے ،جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون پارلیمنٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے ، ہم سوئے رہیں، ارجنٹ کیس بھی مقرر ہی نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے ؟ عوام پارلیمنٹ کے ذریعے ہمیں کہیں کہ وہ کیس 14 دن میں مقرر کریں تو کیا وہ غلط ہو گا؟چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، اس ملک میں کئی بار مارشل لا لگا، میں فیصلوں کا نہیں آئین کا تابع ہوں، سپریم کورٹ میں 57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہیں، پارلیمنٹ اگر بہتری لانا چاہ رہی ہے تو اسے سمجھ کیوں نہیں رہے ؟ اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق جواب دیں۔
اس پر امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں، سب سوالات کے جوابات دوں گا۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا اصلاحات ضروری تھیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب ہم جو بولے جا رہے ہیں آپ وہ سوالات لکھ کہاں رہے ہیں؟جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ قانون بہت اچھا ہے مگر پارلیمنٹ یہ نہیں بنا سکتی؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی فرد واحد کو لامحدود ناقابل احتساب اختیار دیا جاسکتا ہے ؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں صرف یہ بتادیں کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے ؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ آئینی اختیارات میں مداخلت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ہر مرتبہ مارشل لا لگانے والے آمر کو 98.6 فیصد ووٹ ملتے ہیں، ہم قانون کو جانچنے کیلئے ریفرنڈم نہیں کرواسکتے ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات ریگولیٹ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہے ؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ میری دلیل ہے قانون اچھا ہے لیکن طریقہ کار غلط اپنایا گیا، عدلیہ کو خود اختیارات ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کون ہوتی ہے کہ کمیٹی تین رکنی ہی ہوگی، 5 رکنی کمیٹی کیوں نہیں کرسکتی، کیا پارلیمنٹ فیملی کیسز سننے کیلئے 7 رکنی بینچ تشکیل دینے کا قانون بناسکتاہے ؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے رولز کی ہی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔جسٹس منیب اختر نے کہا ججوں کی جانب سے دئیے گئے فیصلے بھی قانون ہی ہوتے ہیں، ججوں کے فیصلوں سے بنائے گئے قوانین کے خلاف پارلیمان قانون سازی کیسے کر سکتا ہے ، کیا پارلیمان عدالتی فیصلوں کو قانون سازی کے ذریعے بے اثر بھی کر سکتا ہے ،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ 3 ججوں کا بینچ بنانا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے تو 17 ججوں کا اختیار ایک جج کو دینا کیسے درست ہے ؟ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ساتھی ججوں سے گزارش ہے کہ پہلے وکیل صاحب کو دلائل دینے دیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ معاملہ عدلیہ کی انتظامی امور میں پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کا ہے ، امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اور سپریم کورٹ کے رولز الگ الگ ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایگزیکٹو کے رولز جب چیلنج ہوں گے تو دیکھیں گے ، آپ سپریم کورٹ رولز بتائیں۔چیف جسٹس کے بار بار ٹوکنے پر وکیل امتیاز صدیقی غصے میں آکر بولے کہ آپ مجھے کہتے ہیں دلائل دیں، میں دلائل دیتا ہوں تو اپ ٹوک دیتے ہیں، میں آدھے گھنٹے سے آپ کو سن رہا ہوں، صبر کے ساتھ میرے دلائل بھی سنیں، آپ اگر میری تضحیک کریں گے تو میں دلائل نہیں دوں گا۔دریں اثنا عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں دوپہر 3 بجے تک وقفہ کر دیا۔وقفے کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ درخواستیں کوئی عوامی مفاد کا معاملہ اٹھا رہی ہیں، میرے فاضل دوستوں نے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کی، قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے ، قانون سے ادارے میں جمہوری شفافیت آئے گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں، اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ 1962 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے ، 1973 کے آئین میں عدلیہ کو اس لیے آزاد بنایا گیا ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا، یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے ہے ، قانون کے ذریعے سارے اختیارات اس عدالت کے اندر ہی رکھے گئے ہیں، یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری کیلئے متعلقہ ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1973کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان سے ہٹایا نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کر دیا جائے ، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے ، ہمارے پاس اس معاملے پر ہائی کورٹ سے کم اختیارات ہیں، پاکستان میں کئی چیزیں خلاف آئین ہو رہی ہیں مگر وہ 184/3 میں نہیں آتی۔ہائی کورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کر سکتی ہے ، ہم اپیل کے فورم پر اسے سن سکتے ہیں، ہمیں 184/3 اور بنیادی حقوق دونوں دیکھنے ہیں۔جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ درخواست گز ار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقیناً سب کا حق ہے ۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیس کو فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہو گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے ، اپیل کیلئے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے ، آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے سپریم کورٹ سے متعلق نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیتا تو کیا سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے ، جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس قانون کا دیباچہ اور شق 3 پڑھیں، ایک قانون بات ہی سپریم کورٹ کے اختیارات کی کر رہا ہے تو ہائی کورٹ میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے ۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ رولز 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے تھے ، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کیا ہے ، سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججوں پر مشتمل ہوتی ہے ، کیا وہ گھر میں بیٹھ کر بھی سپریم کورٹ ہوں گے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اکیڈیمک بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں، سول مقدمات میں 60 دن کے اندر نظر ثانی دائر ہوتی ہے میں کہہ سکتا ہوں یہ آئین کے خلاف ہے ، اگر میں بینچ بنانے سے انکار کر دوں چھٹی پر چلا جائوں تو مجھے کون روک سکتا ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس 2019 سے اب تک نہیں ہوا، زیر التوا مقدمات 40 سے 60 ہزار ہو گئے ہیں، ہم نے اگر یہ سب کام نہیں کرنے تو سرکار سے پیسہ کیوں لے رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ رولز کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے ، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا دوبارہ پارلیمنٹ کو لگا کر 3 کے بجائے 17 جج بیٹھ کر بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ کریں تو وہ بدل دیں گے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ضروری نہیں بار بار پارلیمنٹ پر سوال اٹھایا جائے ، اگر سپریم کورٹ میں اتنے مقدمے زیر التوا نہ ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ نہ کرتی، امریکی صدر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بس 20 منٹ ہیں، جب تک کوئی قانون خلاف آئین نہ ہو تواس کی حمایت کرنی چاہیے ، اگر زیر التوا کیسز اتنے زیادہ نہ ہوتے اور کچھ فیصلے نہ آئے ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ قانون نہ لاتی۔جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ یہ قانون ہمارے زیرالتو مقدمات کا بوجھ بڑھا تو نہیں دے گا، جسٹس علی مظہرنے کہا کہ ماضی سے اس قانون کا اطلاق کرنے سے تو 1947 کے بعد سارے کیسز اپیل میں آجائیں گے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کا 30 دن کا وقت تو گزر گیا اب تک کتنی اپیلز آئی ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون معطل تھا اس لیے اپیلیں نہیں آئیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ان تمام فیصلوں کے خلاف اپیل آسکتی ہے جن میں مارشل لا کو قانونی راستہ دیا گیا ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ شفافیت ہو رہی ہے تو کیوں چھپا رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم آئین ،قانون پھر رولز اور پھر نوٹیفیکیشنز کے پابند ہیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ فرض کریں کہ اس کیس کو غیر آئینی قرار دیا گیا تو معاملہ ختم اور اگر عدالت نے اس قانون کو آئینی قرار دے دیا تو دئیے گئے فیصلوں کا کیا ہو گا جس پر اٹانی جنرل نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہاں کیا فیصلہ دینا ہے ، جسٹس سردار طارق نے کہا کہ دیکھنا ہے سیاسی جماعتیں کیا چاہتی ہیں۔اٹارنی جنرل نے اس کے ساتھ اپنے دلائل مکمل کیے ، اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ انہیں سندھ طاس معاہدے سے متعلق مقدمے کے حوالے سے بیرون ملک جانا ہے ، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ اہم مسئلہ میں جا رہے ہیں ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں جس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھوایا کہ فریقین 25 ستمبر تک عدالتی سوالات کے جواب جمع کرائیں اور آئندہ سماعت کی تاریخ ساتھی ججوں سے مشاورت کے بعد دی جائے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بینچوں کی تشکیل سے متعلق دونوں سینئر ججوں سے مشاورت کی اور دونوں سینئر ججوں سردار طارق اور اعجاز الاحسن نے مجھ سے اتفاق کیا ہے ۔ اس ہفتے بینچز کی تشکیل اب میں کر سکوں گا جس پر وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اگر آپ نے آپس میں ہی طریقہ کار طے کرنا ہے تو یہی تو میرا کیس ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آپس میں مشاورت کر لیں گے کہ بینچز کیسے تشکیل دینے ہیں ،سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے دو سینئر ججو ں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کی مشاورت کے بعد سپریم کورٹ میں آج19ستمبر سے مقدمات کی سماعت کیلئے ججز روسٹر جاری کر دیا ہے ،کل پانچ بینچ تشکیل دئیے گئے ہیں، بینچ نمبر ایک چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا ہے جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شا مل ہیں، بینچ نمبر دو جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مسرت ہلالی ،بینچ نمبر تین جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس شاہد وحید ،بینچ نمبر چار جسٹس یحیی آفریدی کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر جبکہ بینچ نمبر پانچ جسٹس جمال خان مندو خیل کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس سید حسن اطہر رضوی پر مشتمل ہوگا۔