فیض آباد دھرناکیس:وفاقی حکومت الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی نے بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کرلیا:سب اتناڈرے ہوئے کیوں ہیں؟:چیف جسٹس

فیض آباد دھرناکیس:وفاقی حکومت الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی نے بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کرلیا:سب اتناڈرے ہوئے کیوں ہیں؟:چیف جسٹس

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر)فیض آباد دھرنا کیس میں وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی نے بھی نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کرلیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا سب اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں؟ خادم رضوی نے فیصلہ تسلیم کیا تھا۔

آپ لوگ وہاں تک پہنچ نہیں سکتے ،سزا جزا بعد کی بات اعتراف تو کریں کہ نظرثانی درخواست دائر کرنے کا حکم اوپر سے آیا، سچ بولیں ہمارے ساتھ نہ کھیلیں، وہ صاحب کدھر ہیں جو کینیڈا سے جمہوریت کیلئے آئے تھے ، 12مئی کو 55 لوگ مرے ، خون ہوا اور آپ کہہ رہے ہیں مٹی پاؤ،خود احتسابی کا سلسلہ اپنے سے شروع کرنا چاہتے ہیں، فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل نہ کرنیکا آپشن نہیں جب تک حکم پر نظرثانی نہ ہوجائے ،درخواست واپس لینے کا کہنا کافی نہیں،یا تو کہیں معاہدہ پر دستخط کرنیوالوں کیخلاف ایکشن لے رہے ہیں یا اگلی افراتفری تک ایسے ہی رہنے دینا چاہتے ہیں ؟ عدالتی وقت ضائع ،ملک کوپریشان کئے رکھا،جرمانہ کیوں نہ کریں، فیصلے کو آج آپ نے سچ مان لیا، اب آپ کا امتحان کہ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، فیصلے پر عمل ہوتا تو سنگین واقعات نہ ہوتے ۔ چیف جسٹس نے عدالتی حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہا اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین نے کہا ہے فیصلے پر عملدرآمد کو ریکارڈ پر لائیں گے ،عدالت نے فیض آباد دھرنا معاہدے کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی ہدایت کر دی اور مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے 27 اکتوبر تک فریقین کے وکلا سے تحریری جواب طلب کرلیا، سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے فیصلے پر عملدرآمد رپورٹ بھی طلب کرلی ۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا آپ کو مزید کتنا وقت دیں تو اٹارنی جنرل نے عملدرآمد کیلئے 2 ماہ کا وقت دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)کے 2017 کے دھرنے سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت کی،حکومت پاکستان بوساطت سیکرٹری وزارت دفاع کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان،آئی بی کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل، الیکشن کمیشن کی جانب سے وکیل ملک قمر افضل، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وکیل سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر، مسلم لیگ ضیا کے سربراہ اعجاز الحق کی جانب سے وکیل ایم اے غفارلحق، پیمرا کی جانب سے حافظ اے رحمان بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ ایم کیوایم پاکستان کے وکیل اورعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے وکیل امان اللہ کنرانی پیش نہیں ہوئے ۔ وفاقی حکومت کے ذریعے وزارت دفاع، الیکشن کمیشن،پی ٹی آئی ،اعجاز الحق، پیمرا و دیگر نے اپنی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی ، چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کوئی سچ بولنے سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے ؟ فیصلے پر عمل ہو جاتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے ، لکھیں ناں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی درخواست دائر کریں، یہ بھی لکھیں کہ حکم کہاں سے آیا تھا، اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مٹی پائو، نظر انداز کرو تو وہ بھی لکھیں، 12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے ، کیا ہوا، اس پر بھی مٹی پائو؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت، حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو، کیا غلطیو ں سے بھر پور فیصلہ اچانک درست ہو گیا، شیخ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں تو اپنا متبادل مقرر کر کے جائیں، پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، یہ ریگولر بینچ ہے ، خصوصی بینچ نہیں، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں لیکن یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں،اگر سپریم کورٹ نے چار سال نظرثانی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر نہیں کیں تو کورٹ پر انگلی اٹھائیں۔

ہم سب قابل احتساب ہیں ، ججز عوام کو جوابدہ ہیں ،یہ تو نہیں ہو گا کہ کب فلا ں مقدمہ لگے گا کب نہیں جنہیں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں غلطیا ں نظرآرہی تھیں اب ان کو فیصلہ ٹھیک نظر آرہا ہے کیا ہم سمجھیں کہ الیکشن کمیشن و پیمرا و دیگر نے کسی کے کہنے پر نظرثانی کی درخواستیں دا ئر کیں،بتائیں کس کا اوپر سے حکم آیاتھا اور پھر نظرثانی اپیلیں دا ئر کی گئیں،فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے ، اس لیے کیس اس بینچ کے سامنے نہیں لگا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ہم نظر ثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لے رہے ہیں، کوئی وجہ ہے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کوئی خاص وجہ نہیں صرف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں،اٹارنی جنرل نے کہا نظر ثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی، اٹارنی جنرل نے کہا میں اپنا بیان دے رہا ہوں،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ہم درخواست واپس لے رہے ہیں، یا تو آپ کہیں دھرنے والوں کے ساتھ معاہدے پر جس کے دستخط تھے ان کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں، یا تو بتائیں ناں کہ ہم نے فیصلے کی فلاں فلاں باتوں پر عمل کر لیا، یا پھر ایسے ہی اگلی افراتفری تک رہنے دینا چاہتے ہیں،سب نظرثانی درخواستیں واپس بھی ہوجائیں تو ہمارے فیصلے کا کیا ہوگا، سب لوگ ڈرے ہوئے کیوں ہیں، کوئی درست بات نہیں بتا رہا، سچ بولنے سے ہر کوئی کترا کیوں رہا ہے ،اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے ، اگر اس وقت اس فیصلے پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات پر عمل سے صحیح سمت میں چلیں گے۔

عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہی ہونا چاہیے ، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی دلچسپ بات ہے جنہیں نظرثانی دائر کرنا چاہیے تھی انہوں نے نہیں کی، تحریک لبیک نے کوئی نظر ثانی دائر نہیں کی، فیصلہ تسلیم کیا، مرحوم خادم رضوی کی اس بات پر تعریف بنتی ہے ، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، غلطیاں تسلیم کرنا بڑی بات ہے ، مرحوم خادم حسین رضوی مطمئن تھے اور انہوں نے فیصلہ قبول کیا،پیمرا کو کہا گیا تھا کہ نظرثانی دائر کرنے کا بورڈ میٹنگ میں فیصلہ ہوا، پاکستان میں یہی چلتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے ،ملک میں کنٹینر لگانے کی روایت 12مئی 2007سے پڑی، اس سے پہلے کنٹینر نہیں ہوتے تھے ، میں نے پاکستانی سیاست میں کنٹینر لگانے والی چیز12مئی 2007کے بعد دیکھی، ہم ریاستی اداروں کی تعمیر چاہتے ہیں ،ہم چپ رہیں گے کچھ کہیں گے بھی نہیں اتنے ڈرپوک ہیں، آپشن ہی نہیں کہ حکم پر عملدرآمد نہ کیا جائے جب تک اس حکم پر نظرثانی نہ ہوجائے ،ہر کوئی قابل احتساب ہے ، ہم بھی عوام کے سامنے جوابدہ ہیں، روشن مستقبل احتساب کے بغیر ممکن نہیں، پہلے سچ کو تسلیم توکریں، جرم اگر ہوا ہے اعتراف توکرلیں ، جزاسزاتوبعد کی بات ہے ،جن کو جمہوریت چاہیے تھی وہ کینیڈاسے یہاں کیوں نہیں آتے ،فیض آباد دھرنا کیس اہم معاملہ ہے ، دیکھا جائے گا اسے براہ راست نشر کیا جائے یا نہیں،اللہ تعالیٰ نے سور توبہ کی آیت19میں فرمایا ہے کہ! اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کاساتھ دو ، آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا، اب آپ کا امتحان ہے کہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، دیکھنا ہوگا کہ لائیو یہ کیس نشر ہوسکتا ہے یا نہیں، اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے نظرثانی اپیل واپس لینے کا بیان دیا تو پیمرا کے وکیل نے کہا کہ میں بھی اپنی نظرِ ثانی اپیل واپس لے رہا ہوں،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں؟ٹی وی چینلز اور یوٹیوب چینلز پرلمبے لمبے تبصرے کئے جاتے ہیں۔

پی ٹی آئی وکیل سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے ،چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے ؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی۔بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے ۔چیف جسٹس نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے ، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہو گئیں؟ کیا نظرِ ثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے ؟ جو اتھارٹی میں رہ چکے وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریر کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ہمیں سنا نہیں گیا،اب ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں، آکر بتائیں، ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں، کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے ، آپ طویل پروگرام کر لیں مگر ہر ادارے کو تباہ نہ کریں، یہاں آپ خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا، ہم پیمرا کی درخواست زیر التوا رکھیں گے ، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا، سوال تو اٹھتا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ آخر سب اتنے ڈرے کیوں ہوئے ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس لینڈ مارک ججمنٹ ہے ، کیس کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے ۔چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تیسری مرتبہ شرعی اصول کے تحت پوچھ رہا ہوں، کیا آپ واقعی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں ہدایات کی روشنی میں کہہ رہا ہوں، ہم دفاع نہیں کرنا چاہتے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اچھی شہرت کے وکیل ہیں، ہمیں آپ پر یقین ہے ، عرفان قادر صاحب کو نوٹس کر دئیے ہیں۔چیف جسٹس نے اعجاز الحق کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں آپ نے دھرنے کی حمایت نہیں کی؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی؟ کوئی بیان حلفی دے دیں کہ آپ کا موقف درست ہے ، اٹارنی جنرل صاحب آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے ؟ عدالتی وقت ضائع کیا گیا، ملک کو بھی پریشان کئے رکھا، اب آپ سب آکر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں۔الیکشن کمیشن کے وکیل ملک قمر افضل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نظرِ ثانی واپس لے رہی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ان فضول قسم کی درخواستوں پر اٹارنی جنرل پر جرمانہ عائد کرنا چاہیے ۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن تب ٹھیک تھا یا اب ہے ؟کیا کوئی کنڈکٹر تھا جو یہ سب کرا رہا تھا؟ الیکشن کمیشن نے تب کس کے کہنے پر نظرِ ثانی دائر کی؟ آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لئے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے ، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہو رہا تھا اب ہورہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا؟ پاکستان میں وہ چلتا ہے جو پوری دنیا میں نہیں ہوتا، پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے ، الیکشن کمیشن بتائے کہ کس نے کہا تھا کہ نظرِ ثانی دائر کر دو؟ نعوذ باللہ اوپر سے حکم اللہ کا نہیں یہاں کسی اور کا ہوتا ہے ، عدالتوں کواپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ، نبی کریم ؐنے بھی جھوٹ سے منع کیا ہے ، جو ہوا اس کا اعتراف تو کر لیں، جزا سزا بعد میں ہو گی، اعتراف جرم تو کریں، مان لیں کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت فرد واحد کے حوالے کیا گیا تھا، آج الیکشن کمیشن آزاد ہو گیا ہے ، ہمت ہے تو کہیں تب کون سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا، پورے پاکستان کو منجمد کیا گیا، خادم رضوی مرحوم نے تو تسلیم کیا، آپ لوگ تو وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتے ، کس کا ڈر ہے ؟ اوپر والے کا تو نہیں ہے آخر کس سے ڈرتے ہیں؟ ٹی وی پر جا کر بھی تقریریں کریں گے تو عدالت کو ہی سچ بتا دیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آپ کا فیصلہ تمام حقائق بیان کر رہا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب فیصلہ درست ہے تو نظرِ ثانی میں کیوں آئے ؟ کون سا نقص تھا جو تب فیصلے میں تھا اور اب نہیں ہے ؟ کراچی میں 55 لوگ مرگئے ، کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہاں جو بھی ہو کہا جاتا ہے مٹی پائو، لوگ مر جائیں مٹی پائو، حضرت عمر ؓنے کہا کہ دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو میں جوابدہ ہوں، جتھے کی طاقت کی نفی نہیں کی گئی، وہ آج بھی غالب ہے ، سبق نہیں سیکھا ہم نے ، جن صاحب کو بہت جمہوریت چاہیے تھی وہ کینیڈا سے واپس کیوں نہیں آتے ؟ پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو رہی، جرمنی میں فاشزم تھی انہوں نے تسلیم کیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان تو غلطیاں بھی تسلیم نہیں کرتا، مجھ سمیت احتساب سب کا ہونا چاہیے ، احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے ، اٹارنی جنرل صاحب یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرِ ثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو، سپریم کورٹ بھی وہی رہتی ہے جج چاہے کوئی بھی ہو،وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ ہمارا اس دھرنے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور دھرنے کے حق میں ان کے موکل نے کوئی بیان نہیں دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئی ایس آئی رپورٹ کی روشنی میں آبزرویشن دی تھی۔چیف جسٹس نے وکیل اعجاز الحق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ آپ نے فیض آباد دھرنے کو سپورٹ نہیں کیا۔وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ اعجاز الحق کے حوالے سے جو آبزرویشنز دی گئیں وہ درست نہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اعتراض فیصلے پر نہیں بلکہ رپورٹ پر ہے ، ہم نے فیصلے میں اعجاز الحق کا ذکر آئی ایس آئی رپورٹ کی روشنی میں کیا، آپ بیان حلفی دیں رپورٹ غلط تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہرجگہ کیوں کنٹینر لگائے جاتے ہیں؟ جنگی قیدیوں کا 80-80سال بعد بھی ٹرائل ہوتا ہے ایسی ہوتی ہیں زندہ قومیں ہماری طرح نہیں ہوتا کہ بس جو ہوگیا سو ہوگیا ایسا نہیں ہوتا آگے بڑھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے خلاف شکایات ہم سنتے ہیں ہم نے کسی سے اتھارٹی لی نہیں، کل اگر کوئی ہمارے پاس آگیا کہ ایکشن لیں تو پھر کیا ہوگا؟ بہتر ہے خود ایکشن لیں، ہم ریاستی اداروں کو مستحکم کررہے ہیں، انہیں نیچا نہیں دکھا رہے ، ہمارا فیصلہ اس دورانیے کیلئے تھا، ہم بہت کچھ لکھ سکتے تھے ، ہم نے فیصلے میں وہ لکھا جو ہمارے سامنے حقائق تھے ، احتساب کے بغیر ملک کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک صحافی کو ہراساں کرنے کی تصویر چھپی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سچ کی تلاش کا کمیشن تو بنا نہیں، ہمیں ہمارا مواخذہ کرنا چاہیے ، آج سب نے تسلیم کیا ہمارا فیصلہ سچا تھا، اب آپ پر منحصر ہے سچ کا ساتھ دینا ہے یا نہیں،چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ کچھ فریقین عدالت میں موجود نہیں لیکن ہم تمام فریقین کو ایک اور موقع فراہم کرتے ہیں، اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے بارے میں رپورٹ دیں، اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد کو ریکارڈ پر لائیں گے ،کوئی بھی فریق یا فرد تحریری جواب جمع کروانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کروا سکتا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم لائیو سٹریمنگ کیلئے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کو ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر چلا رہے ہیں، لائیو سٹریمنگ کے حوالے سے دو رکنی کمیٹی بنائی ہے جو اس وقت کام کررہی ہے ، کمیٹی کی گزارشات کے بعد اس معاملے کو دیکھیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں