نوازشریف کی نااہلی برقرار یا نہیں ، قانونی ماہرین تقسیم
لاہور (محمد اشفاق ،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کی طرف سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ازخود نوٹس کے مقدمات میں ماضی سے اپیل کے حق کی شق مسترد کئے جانے کے بعد سوال اٹھ رہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف، جہانگیر ترین اور دیگر شخصیات کی نااہلی برقرار رہے گی یا نہیں، اس حوالے سے قانونی ماہرین نے مختلف آرا کا اظہارکیا ہے ۔
چونکہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آرٹیکل 184(3)کے تحت کیس میں کیا گیا تھا اس لیے اس کیس میں نواز شریف کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ملنا تھا،نواز شریف کی نااہلی صادق اور امین نہ ہونے پر آرٹیکل 63 (1) (ایف) کے تحت ہوئی تھی،مذکورہ آرٹیکل میں نااہلی کی مدت کا کوئی ذکر نہیں ہے ،بعد میں سپریم کورٹ نے ایک کیس میں آئینی تشریح کے ذریعے اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کو تاحیات قرار دیا تھا۔تاہم پی ڈی ایم حکومت نے پارلیمان کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں ترمیم کرکے اس آرٹیکل کے تحت نااہلی کی مدت کو پانچ سال کر دیا تھا۔اس لیے بہت سے قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا نواز شریف کی تاحیات ناہلی والے معاملے پر کوئی اثر نہیں ہوگا،ان کا کہنا ہے کہ چونکہ نواز شریف الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے مقررہ نا اہلی کی مدت گزار چکے ہیں اس لیے اگر نیب کیسز میں نواز شریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے بریت ہوتی ہے تو ان کے الیکشن میں حصہ لینے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں رہے گی۔آئینی امور کے ماہر اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں اس ترمیم اور اس کے نتیجے میں نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے قانونی ماہرین میں اختلاف ہے ،بعض ماہرین کہتے ہیں کہ چونکہ آئین کی کسی شق میں ابہام پر سپریم کورٹ کی جانب سے اس کی تشریح کی جاتی ہے اور سپریم کورٹ کی تشریح کی حیثیت بھی آئین جیسی ہے اور اسے پارلیمان کی عام قانون سازی کے ذریعے تبدیل نہیں کی جاسکتی،آئینی ماہر اور لاہور کے لمز یونیورسٹی کے پروفیسر اسامہ خاور گھمن نے کہا نواز شریف کو الیکشن لڑنے سے روکنے کیلئے کسی آئینی عدالت کو اس ترمیمی سیکشن کو آئین سے متصادم قرار دینا پڑے گا۔
ماہر قانون راجہ عامر عباس نے کہا کہ فیصلہ بنیادی طور پر بہت اہم ہے ، وکلا تنظیمیں اپیل کا حق مانگ رہی تھیں، نوازشریف اور جہانگیر ترین کو اس فیصلے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، فیصلے کا اطلاق آنے والے فیصلوں پر ہوگا،ماہر قانون عرفان قادر نے کہا کہ اپیل کا حق دینا بڑا اچھا فیصلہ ہے ، لوگوں سے اپیل کا حق پہلے چھین لیا جاتا تھا، نوازشریف ریویو میں جا سکتے ہیں، ریویو کا وقت 30 دن کیلئے ہوتا ہے ، ریویو کو فل کورٹ دیکھے گا، میرا نہیں خیال ریویو کو اتنا لمبا کھینچا جائے گا،امان یوسفزئی نے کہا کہ فیصلے کے مطابق نوازشریف کو اپیل کا حق نہیں ملے گا، عام آدمی کو اپیل اور ریویو کا حق مل گیا۔وائس چیئرمین پاکستان بار حسن رضا پاشا نے کہاسپریم کورٹ کا فیصلہ پوری قوم کی اور وکلا کی جیت ہے ، فیصلے سے از خود نوٹس کے مقدمہ میں فریق کو اپیل کا حق مل گیا نظر ثانی کیس میں وکیل تبدیل کیا جاسکے گا ضروری نوعیت کا کیس 14روز کے اندر اندر سماعت کیلئے مقرر ہوگا ، وکلا کے یہ درینہ مطالبات تھے جن کو ماضی میں سنا ہی نہیں گیا چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلے سے زیر التوا مقدمات میں کمی آئے گی سائلین کو انصاف ملے گا نواز شریف کو اس مقدمہ سے فائدہ ہوا یا نہیں اس سوال پر انہوں نے کہا اور بھی غم ہیں زمانے میں نواز شریف کے سوا ، سپریم کورٹ بار نے بھی فیصلہ کو خوش آئند قرار دیا ،وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل آصف شہزاد نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پورے ملک کے وکلا کی آواز ہے وکلا کے 6,6ماہ کیسز سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوتے تھے یہ وکلا کی جیت ہے ۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور سینئر وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہاسپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمنٹ مضبوط ہوئی ہے پارلیمنٹ سپریم ہے انہوں نے کہاکہ اس فیصلے سے نواز شریف کا کوئی لینا دینا نہیں نواز شریف کی نااہلی کا معاملہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد ختم ہوچکا ہے نواز شریف 21اکتوبر کو پلان کے مطابق ملک میں واپس پہنچیں گے ۔