ہائیکورٹ:سول ایوارڈ ستارہ امتیاز دینے کاقانونی نکتہ طے کردیا
لاہور(محمد اشفاق سے )لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے سول ایوارڈ ستارہ امتیاز دینے سے متعلقہ قانونی نکتہ طے کردیا اورتحریری فیصلے میں حکم دیا ہے کہ وفاق ڈیکوریشن ایکٹ 1975 کے تحت ہونے والی نامزدگیوں کا معیار طے کرے۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سول ایوارڈ نوازنے سے متعلق امتیازی سلوک کے خلاف درخواست دائر کی گئی تاہم عدالت نے یہ کہتے ہوئے درخواست مسترد کر دی کہ ایوارڈ کیلئے نامزد نہ ہونا بنیادی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا،گریڈ 20 کے سکو ل پرنسپل خوشدل خان خٹک نے ستارہ امتیاز نہ ملنے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔فیڈرل گورنمنٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز(ایف جی ای آئی)کے ملازم اوروزرات دفاع سے منسلک درخواست گزار خوشدل خٹک نے مؤقف اپنایا کہ سیکرٹری وزارت دفاع نے ایف جی ای آئی سے سول ایوارڈ 2022 کیلئے نام مانگے تھے ،ڈی جی ایف جی ای آئی راولپنڈی کینٹ نے ان سمیت پانچ نام بھجوائے ،لیکن وزرات دفاع نے ایف جی ای آئی کے بھجوائے ناموں کے بجائے دس ناموں پر مشتمل فہرست سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کو بھجوا دی،سول ایوارڈ کیلئے ناموں کو شارٹ لسٹ کرنے میں شفافیت کو برقرار نہیں رکھا گیا،وزرات دفاع نے مرضی کے نام شارٹ لسٹ کر کے کیبنٹ ڈویژن کو بھجوائے ۔ جسٹس جواد حسن نے سول ایوارڈ نہ دینے کے خلاف درخواست خارج کر دی تاہم ایوارڈز دینے کے حوالے سے حکومت کو معیار طے کرنے کا کہا،عدالتی فیصلے کی کاپی وزیراعظم آفس،کیبنٹ ڈویژن،سیکرٹری وزیراعظم اور وزارتوں کو بھجوانے کا حکم دیا۔فیصلے میں کہا گیاکہ آئین کے آرٹیکل 259 میں سول ایوارڈ کا ذکر کیا گیا ہے ، ہر سال دسمبر میں کیبنٹ ڈویژن تمام وزارتوں سے ایوارڈز کیلئے نام مانگتی ہے اور ایوارڈ کمیٹی کو تمام سفارشات بھجوا دی جاتی ہیں،متعدد سیشنز کے بعد معاملہ مرکزی ایوارڈ کمیٹی کو بھجوایا جاتا ہے جس کی صدارت وفاقی وزرا کرتے ہیں،کمیٹی شارٹ لسٹ ناموں کو حتمی منظوری کیلئے بذریعہ وزیراعظم صدر کو بھجواتی ہے ،نامزدگیوں سے ایوارڈز دینے تک مکمل طریقہ کار موجود ہے ،تمام قوائد و ضوابط پر عملدرآمد کے بعد کمیٹی صدر پاکستان کو نام بھیجتی ہے تاہم عدالت نے حکم دیا کہ نامزدگیوں کیلئے معیار طے کریں۔خیال رہے ہر سال 23 مارچ کو مختلف شعبہ جات میں ملکی خدمات کے اعتراف میں متعدد شخصیات کو ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے ۔