بلاول کے انتخابات پر تحفظات ان کی طے شدہ پالیسی

 بلاول کے انتخابات پر تحفظات ان کی طے شدہ پالیسی

(تجزیہ: سلمان غنی) سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے شفاف انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے کردار پر واضح اعتماد کے باوجود ان کے صاحبزادے اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے مسلسل انتخابات کی غیرجانبدارانہ اور منصفانہ حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

بلاول کا یہ کہنا ہے کہ نتائج پہلے سے طے ہیں تو پھر انتخابات کا کیا جواز اور یہ اربوں روپے کا ضیاع ہوگا۔ بلاول بھٹو کے انتخابات کے حوالے سے تحفظات کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ان کی طے شدہ پالیسی ہے اور اس سے پہلے وہ انتخابات کے حوالے سے لیول پلیئنگ فیلڈ کی بنیاد پر سوالات اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔ لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ خود ان کے اور ان کے والد محترم کے موقف میں تضاد کیوں ہے اور بڑا سوال یہ ہے کہ کس کی پالیسی کو جماعت کا آئینہ دار سمجھا جائے ۔

جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے مسلسل ن لیگ کی لیڈر شپ کو ٹارگٹ کرنے اور انہیں ملک پر مسلط کرنے کے الزامات اور شفاف انتخابات پر تحفظات کا تعلق ہے تو ایک تو یہ کہ وہ نکات کو اٹھا کر توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بظاہر ان کی اس پالیسی کا انہیں فائدہ کے بجائے نقصان ہو رہا ہے اور ایک طرف تو وہ یہ باور کراتے نظر آ رہے ہیں کہ آنے والی حکومت ن لیگ کی ہے جس کے اثرات خود انتخابی امیدواروں پر ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بلاول بھٹو ماضی قریب میں ن لیگ کے اتحادی ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ برسراقتدار آ رہی ہے تو پھر وہ دیگر پارٹیوں کی طرف کیونکر رجوع کریں ،خصوصاً پنجاب کی سطح پر ن لیگ کو بلاول بھٹو زرداری کے بیانات کا نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہو رہا ہے اور امیدوار ان الزامات کے حوالے سے سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر ن لیگ برسراقتدار آ رہی ہے تو کیوں نہ اوپر رجوع کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ ن لیگ بلاول بھٹو کے بیانات پر ردعمل سے گریز برت رہی ہے اور دوسرا خود بلاول بھٹو کے ان بیانات سے پیپلزپارٹی میں بھی کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے کیونکہ سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری شفاف انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر اعتماد ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں اور ان کی سیاست کے حوالہ سے عمومی رائے یہ ہے کہ وہ بیانات جذباتی انداز میں دینے کے بجائے حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور کیسے بھی حالات میں وہ فیصلہ ساز قوتوں کے مخالف جانے کو تیار نہیں، ان کی جانب سے الیکشن کمیشن پر اعتماد کے اظہار کے ساتھ ان کے صاحبزادے کے تحفظات سے ایسا لگتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو خود جماعت کے اندر سپیس نہیں مل پا رہی اور وہ اپنے طرز عمل سے بوکھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کرکے اس کا ثبوت فراہم کر ر ہے ہیں ۔ ویسے تو اب تک کی پیپلزپارٹی کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو بڑے سیاسی کھیل میں آصف زرداری پاور پالیٹکس اور بلاول بھٹو پاپولر پالیٹکس کرتے نظر آ رہے ہیں جس کی بنا پر اسے طے شدہ کھیل کا حصہ بھی قرار دیا جا رہا ہے اور لگتا ہے کہ ان کے درمیان سیاسی کردار تقسیم ہے جو اس پر گامزن ہے البتہ اس امر کا جائزہ ضرور لینا ہوگا کہ بلاول انتخابات کی ساکھ پر سوالات کیوں اٹھا رہے ہیں۔ ووٹ بینک ہونے کے باوجود پی ٹی آئی پرخوف و ہراس طاری ہے اور ان کے ذمہ داران، عہدیداران اور متوقع امیدواران جان بچاتے اور چھپتے نظر آ رہے ہیں ۔

ویسے بھی حالات اور انتخابات پر گہری نظر رکھنے والے تو اسے نوراکشتی کہتے دکھائی دے رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی مخالف مدد سے پہلے بھی عدم اعتماد کیا اور حکومت میں آئے اور آنے والے انتخابات میں بھی کوئی ایک پارٹی سادہ اکثریت کی پوزیشن میں نہیں اور حکومت سازی کے عمل میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو مل کر چلنا پڑے گا اور پیپلزپارٹی کسی بھی قیمت پر سندھ کی حکومت کھونا نہیں چاہے گی لہٰذا یہ سب کچھ تبھی ممکن ہوگا کہ جب انتخابات ان کے نتائج پر یکسو ہوں اور ان انتخابی نتائج کی بنائپر حکومت سازی ہو، ویسے تو یہ امکان موجود ہے کہ پیپلزپارٹی کسی بھی طور پر اپنا ویژن پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈالے کیونکہ پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کو اس کی قیمت کا ادراک ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں