8فروری کو الیکشن نہ ہوئے تو غیر سیاسی تبدیلی روکی نہ جاسکے گی

8فروری کو الیکشن نہ ہوئے تو غیر سیاسی تبدیلی روکی نہ جاسکے گی

(تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان میں آٹھ فروری کے انتخابات کے حوالہ سے حکومت اور الیکشن کمیشن کے واضح بیانات اعلانات اور اقدامات کے باوجود اس حوالہ سے کنفیوژن کون اور کیونکر پھیلا رہا ہے یہ بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے۔

اب تک کی صورتحال میں ظاہر یہ ہو رہا ہے کہ بعض جماعتیں انتخابات میں اپنا موثر کردار ممکن نہ بنتا دیکھ کر یہ کہتی نظر آ رہی ہیں کہ ان انتخابات کا کیا فائدہ اور یہ انتخابات انتخاب نہیں بلکہ سلیکشن ہوں گے اور یہ کھلے اور چھپے انداز میں اپنے اس بیانیہ کو چلاتے نظر آ رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے نتیجہ میں ان کے مخالفین کے برسراقتدار سے بہتر ہے کہ ملک میں بے یقینی کی کیفیت رہے تاکہ مخالفین بھی ایسا طرزعمل اختیار کرنے پر مجبور ہوں کہ ملک میں انتشار بڑھے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نوے روز کے انتخابی عمل بارے سماعت کے عمل میں الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کا حکم دیا اور ایوان صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان اتفاق رائے سے 8فروری کی تاریخ طے ہوئی اور خود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8فروری کی تاریخ کو پتھر پر لکیر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو بھی انتخابات کے حوالہ سے کنفیوژن کا مرتکب ہوا وہ آئینی پاکستان کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پائے گا اور اس واضح اور دو ٹوک اعلان کے بعد انتخابات کے انعقاد کے حوالہ سے کنفیوژن ختم ہوئی تو پھر سیاسی جماعتوں نے لیول پلیئنگ فیلڈ کو ایشو بنا کر نیا محاذ کھول ڈالا اور مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ اپنے مخالفین پر اثر انداز ہوا جائے اور پھر اسی بنا پر انتخابات کی ساکھ پر اثر انداز ہونے کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا گیا اور بعض سیاسی قائدین کھلے طور پر انتخابات کی ساکھ کو ٹارگٹ کرتے دکھائی دئیے اور گزشتہ ایک ہفتہ سے الیکشن کمیشن کی انتخابی تیاریوں کے باوجود انتخابات میں تاخیر کی افواہیں جنم لے چکی ہیں جو ایک منظم سلسلہ کی کڑی ہیں اور مقصد انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل ایسی فضا طاری کرنا ہے جو انتخابی عمل پر اثر انداز ہو سکے ویسے تو ماہرین اس امر پر مصر ہیں کہ انتخابات کے حوالہ سے کوئی حل نہیں اور انتخابات 8فروری کو منعقد نہ ہوئے تو پھر غیر سیاسی تبدیلی کو روکا نہیں جا سکے گا یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں تاخیر کی خبروں کو بے بنیاد قراردیا اور واضح کیا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے حوالہ سے پرعزم ہے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے واضح تردید کے کیا یہ افواہیں دم توڑ جائیں گی یہ بڑا سوال ہے لیکن جب حالات واقعات اور خصوصاً سیاسی فضا پر نظر دوڑائی جائے تو انتخابات کے التوا کے حوالہ سے افواہوں کا سلسلہ محض وقتی محسوس نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مائنڈ سیٹ متحرک نظر آتا ہے اور ویسے بھی اگر افواہوں کے اس سلسلہ کا تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی ظاہر کرتے ہوئے انتخابی مہم کا آغاز کیا ہوتا تو یہ افواہیں جنم نہ لیتیں کیونکہ ماضی میں انتخابی عمل کے اعلان کے ساتھ باقاعدہ انتخابی میدان لگا نظر آتا تھا سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم میں جان ڈالتی اور اس حوالہ سے اپنے انتخابی امیدواروں کو سرگرم بتاتی نظر آئیں تھی لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا انتخابات کی تاریخ سامنے آنے کے باوجود سیاسی جماعتیں وہ ماحول طاری کرنے میں ناکام رہیں جو پاکستان میں انتخابات کا خاصہ رہا ہے ،پاکستان کی سیاسی قوتیں پاکستان میں انتخابی عمل اس کی شفافیت اور آزادانہ کردار کے حوالہ سے یکسو ہوں گی تو پھر نہ تو انتخابی عمل پر کوئی اثر انداز ہو سکے گا اور نہ ہی انتخابات کی ساکھ متاثر ہوگی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں