پنجاب کے سیاسی محاذ پر خاتون وزیراعلیٰ کا تجربہ پہلا

پنجاب کے سیاسی محاذ پر خاتون وزیراعلیٰ کا تجربہ پہلا

(تجزیہ: سلمان غنی) پنجاب میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے بعد آج پیر کے روز قائد ایوان کا انتخاب ہونا ہے اور قوی امکان ہے کہ ن لیگ کی نامزد کردہ مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ منتخب ہو جائیں گی۔

وزیراعلیٰ کے انتخاب کے بعد حکومت سازی کا بڑا مرحلہ تو پایہ تکمیل کو پہنچے گا اور آئندہ دو تین روز میں کابینہ کا پہلا مرحلہ سامنے آ جائے گا لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کی نامزد وزیراعلیٰ مریم نواز مشکل صورتحال میں پنجاب کی قیادت کی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کر پائیں گی ۔ پنجاب کے سیاسی محاذ پر خاتون وزیراعلیٰ کا تجربہ ملکی تاریخ میں پہلا ہے اور مریم نواز کے حوالے سے ایک بات تو واضح ہے کہ انہوں نے شدید مشکلات میں مقدمات اور جیلوں کے باوجود سیاسی محاذ پر اپنا جرأت مندانہ انداز اختیار کر کے اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور خصوصاً مسلم لیگ ن میں اپنے فعال کردار کے ذریعہ خود کو اپنے والد نواز شریف کے متبادل کے طور پر پیش کیا لیکن بطور وزیراعلیٰ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا بلکہ اسے کڑا امتحان قراردیا جا سکتا ہے ۔مریم نواز کیلئے بڑا چیلنج ہے وہ انتخابی مہم اور اس سے پہلے حکومت مخالف جلسوں میں جارحانہ انداز اپناتی نظر آتی رہی ہیں اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتی نظر آئیں لیکن اب بدلے ہوئے حالات میں انہیں بعض حدود و قیود کا پابند رہنا ہوگا سیاسی رہنما کے طور پر دل کی بھڑاس نکالنا مشکل نہیں ہوتا لیکن پنجاب جیسے بڑے صوبے اور بادشاہ گر صوبے کی وزارت اعلیٰ کا منصب زیادہ سنجیدہ طرزعمل اور حد سے زیادہ صبر و تحمل کا متقاضی ہوگا جس کا کسی حد تک مظاہرہ انہوں نے سپیکر ، ڈپٹی سپیکر کے انتخابی مرحلہ میں مخالفانہ نعرے بازی کے دوران کیا اب وہ پہلی بار حکومتی منصب پر فائز ہونے والی ہیں حکومتی منصب کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں اس منصب پر بہت سی باتوں سے درگزر کرنا ہوتا ہے بلاشبہ اپوزیشن کے عزائم ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کا ٹارگٹ مریم نواز ہوں گی کیونکہ وہ انہیں ن لیگ کی متبادل لیڈر سمجھتے ہیں لیکن کیا مریم نواز کا ٹارگٹ بھی پی ٹی آئی ہوگی یہ دیکھنا پڑے گا البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مریم نواز نے مسائل کو ٹارگٹ کیا تو وہ سرخرو ہوں گی بہت سے شعبے اصلاح اور توجہ کے محتاج ہیں اور خود مریم نواز اس کا اعتراف بھی کر چکی ہیں ان میں انہیں اصلاح احوال کیلئے غیر روایتی اقدامات اور سوچ اپنانا ہوگی اس کے بغیر تبدیلی نہیں آ سکے گی بلاشبہ پنجاب بڑا صوبہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس پنجاب ہوتا ہے اس کی مرکز میں بھی مضبوط حکومت ہوتی ہے جب بھی ایسا ہوا کہ کسی کی مرکز اور کسی اور کی پنجاب میں حکومت آئی تو مسائل پیدا ہوئے عدم استحکام آیا بے نظیر بھٹو کے دور میں ن لیگ کی پنجاب میں حکومت سے مسائل پیدا ہوئے اب مریم نواز اور ان کے چچا شہباز شریف دونوں خوش قسمت ہیں کہ مرکز کو پنجاب سے تقویت ملے گی اور شہباز شریف اندرون و بیرون ملک بہترین پروازکے حامل ہوں گے لیکن یہ تبھی ممکن ہوگا کہ حکومتیں عوام کو ڈلیور کرتی نظر آئیں سیاسی محاذ پر تناؤ کا خاتمہ ہو پی ٹی آئی کی حکومت کی بڑی کمزوری عثمان بزدار تھے ہمارے معاشرے سے خواتین پر مظالم اور ان سے امتیازی سلوک کا خاتمہ بھی کرنا ہے ان کیلئے روزگار کے مواقع بھی فراہم کرنا ہوں گے اگر وہ اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں صوبے کی خواتین میں احساس تحفظ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی پھر نوجوان بھی پاکستان کی بڑی سیاسی حقیقت بن کر سامنے آئے ہیں ان میں ردعمل سے غصہ ہے اور احساس محرومی ہے جس کو ان کے مخالفین نے کیش کروایا ہے یہ بھی خاتون وزیراعلیٰ کیلئے بڑا چیلنج ہوگا کہ نوجوانوں میں نفرت کا خاتمہ کرتے ہوئے ان میں امید اور آس پیدا کرنی اور انہیں ہر محاذ پر اکاموڈیٹ کرنا ہوگا آنے والے حالات میں ان کا کردار بڑھے گا اور پھر ان کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان تھانہ کلچر میں تبدیلی امن و امان کا قیام اور گورننس کے عمل سے ہو گا اگر وہ حکمت سے حکومت چلا پائیں تو ان کا سیاسی مستقبل روشن ہوگا اور ویسے بھی ایک خاتون کی حیثیت سے وزارت اعلیٰ کا یہ پہلا تجربہ خود خواتین کے سیاسی کردار بارے اہم ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں