قومی اسمبلی اجلاس،صدر کونئی سمری ارسال:36گھنٹے گزرنے پر بھی فیصلہ نہ ہو سکا،آج بریک تھرو کا امکان،اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذریعے اجلاس بلانے کے فیصلے پر عملدر آمد فی الحال روک دیا گیا

قومی اسمبلی اجلاس،صدر کونئی سمری ارسال:36گھنٹے گزرنے پر بھی فیصلہ نہ ہو سکا،آج بریک تھرو کا امکان،اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذریعے اجلاس بلانے کے فیصلے پر عملدر آمد فی الحال روک دیا گیا

اسلام آباد ( عدیل وڑائچ) حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئے ایک مرتبہ پھر ایوان صدر سے رجوع کر لیا اور اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذریعے اجلاس بلانے کا عمل روک دیا ۔ نگران وزیر اعظم نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی نئی سمری صدر مملکت کو ارسال کر دی ۔

 ذرائع کے مطابق صدر مملکت کو سمری پیر کے روز بھجوائی گئی جس میں 29 فروری کو اجلاس بلانے کی ایڈوائس دی گئی مگر 36 گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود صدر مملکت نے سمری کی منظوری سے متعلق خاموشی اختیار کر رکھی ہے ، صدر اپنے مؤقف پر قائم نظر آتے ہیں کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ نہ ہونے کے باعث قومی اسمبلی تاحال نا مکمل ہے ایسے میں اجلاس کیسے بلایا جا سکتا ہے ؟ وزیر اعظم کی جانب سے بھجوائی گئی دوسری سمری پر بھی صدر کی خاموشی پر عارف علوی کو سیاسی قیادت کے ذریعے پیغام دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہ کی تو ان پر آئین شکنی کے مقدمات درج ہو سکتے ہیں ۔ ایک ذمہ دار ذریعے نے امکان ظاہر کیا ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں صدر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے سمری منظور کر سکتے ہیں کیونکہ مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کیلئے الیکشن کمیشن تو فوری طور پر کسی نتیجے پر پہنچتا نظر نہیں آرہا اور صدر مملکت پر آئینی اور سیاسی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ، ایسے میں آج بدھ کا روز فیصلہ کن اور حتمی ہو گا، نئی سمری میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 91 کا تقاضا ہے کہ انتخابات کے 21 روز کے اندر اجلاس بلایا جائے ۔ صدر کو کہا گیا ہے کہ آئین قومی اسمبلی کے نامکمل ہونے پر اجلاس بلانے سے نہیں روکتا۔ گزشتہ روز اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذریعے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر حکومت کی قانونی ٹیم نے مشورہ دیا کہ صدر مملکت کی منظوری کے بغیر اجلاس بلانے سے انتہائی اہم معاملہ آئینی پیچیدگیوں کا شکار ہو جائے گا آئینی اور قانونی تقاضا یہی ہے کہ صدر مملکت کو نئی سمری بھجوائی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذریعے اجلاس بلانے کے فیصلے پر عملدرآمد فی الحال روک دیا گیا ہے ۔

اسلام آباد (اپنے نامہ نگارسے ،دنیا نیوز) چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا صدر عارف علوی پر اسمبلی توڑنے اور اجلاس نہ بلانے کے دو مقدمات ہوں گے ، سینیٹ میں قائد ایوان اسحاق ڈار نے کہا 29 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ،وفاقی حکومت نے صدر کو ان کے اعتراضات پر جواب بھجوا دیا ہے ،بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا صدر نے قومی اسمبلی اجلاس نہ بلاکر الکل درست کیا،ظلم سے پارٹی ختم نہیں ہوئی بلکہ سب سے زیادہ مضبوط ہوگئی،چیف الیکشن کمشنر کا استعفیٰ بنتا ہے ۔اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر بات کرتے ہوئے کہا بلاول بھٹو نے کہا عارف علوی پر اسمبلی توڑنے اور اجلاس نہ بلانے کے دو مقدمات ہوں گے ،آصف زرداری کو صدرمملکت منتخب کروائیں گے ، صدر منتخب ہوکر آصف زرداری اپنے گورنرز خود فائنل کریں گے ، سیاستدان ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے انہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست کریں، چاہتے ہیں ادارے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں ، دائرے سے باہر جاکر سیاست کریں گے تو 9 مئی جیسے واقعات ہوں گے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے بارے میں سوچتی تو پتا نہیں کیا کیا کر دیتے ، میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے ووٹ مانگنے والوں کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا، سنی اتحاد کونسل نے میرا ووٹ مانگا ہی نہیں، اب یہ کسی اور کی حکومت بننے پر کیسے اعتراض کر رہے ہیں، سنی اتحاد نے مجھے شہباز شریف کو ووٹ نہ دینے کی درخواست تک نہ کی، میں نے پہلے بھی ن لیگ کے ساتھ کام کیا اب اگر انکار کروں گا تو عوام کے مسائل کیسے حل ہوں گے ۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ انہوں نے حکومت بنانے کی کوشش ہی نہیں کی، یہ اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ صدارت عارف علوی کے بس کی بات نہیں ، میرا خیال ہے کہ عارف علوی پر آئین توڑنے کے 2 مقدمات ہوں گے ، ایک مقدمہ عدم اعتماد کے وقت اسمبلی توڑنے کا ہو گا اور دوسرا مقدمہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس نہ بلانے کا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ عارف علوی آئین کو توڑتے ہوئے اپنا فرض نہیں نبھا رہے ، صدر آئینی ذ مہ داری پوری نہیں کرتے تو سپیکر پوری کر دیں گے ۔ سابق وزیرخارجہ نے بھٹو ریفرنس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا مضبوط فیصلہ دیا جائے جس سے ایک فل سٹاپ لگایا جاسکے ، سپریم کورٹ آئین، قانون، فیکٹ کی بات کرتی ہے ، ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشل ٹرائل نہیں عدالتی قتل ہوا تھا، امید ہے بھٹو کو انصاف ملے گا، ایسی مثال قائم ہو کہ مستقبل میں ایسا نہ ہو۔ جج صاحبان کے سامنے تیزی سے ثبوت پیش کررہے ہیں، امید ہے آخرکار شہید قائد ایوان کو انصاف ملے گا، امید ہے عدالت خود پرلگے داغ کو دھوئے گی۔سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا 29 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ،وفاقی حکومت نے صدر کو ان کے اعتراضات پر جواب بھجوا دیا ہے ، ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی میں سپیکر و ڈپٹی سپیکر کا انتخاب لڑیں گے ، ہم چاہتے ہیں کہ جے یو آئی سمیت سب کو ساتھ لے کر چلیں ، مسائل اتنے گہرے ہیں کہ ہم سب مل کر کوشش کریں گے تو ان مسائل سے نکل سکیں گے ، اس وقت قومی اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے مختلف آرا آرہی ہیں، اگر صدر ایک بار پھر آئین شکنی کرنا چاہتے ہیں تو وہ اجلاس نہ بلائیں ، آئین کا آرٹیکل بڑا واضح ہے کہ 21 روز میں اسمبلی اجلاس طلب کیا جائے ، صدر 26، 27 یا 28 کو اجلاس بلا سکتے تھے ، انہوں نے اعتراض لگا کر سمری واپس کردی، اعتراض یہ ہے کہ ابھی ایوان مکمل نہیں ہے ، ایوان مکمل تب ہوتا ہے جب ممبرز کا نوٹیفکیشن ہوچکا ہو ، جب نوٹیفکیشن ہی نہیں ہوا تو ایوان کے نامکمل ہونے کا کیا جواز ہے ۔ سپیکر نے جو ممبر موجود ہوں گے ان سے حلف لینا ہے ، پہلا کام جن ممبران کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا ان سے حلف لے لیں، چاہئے تھا کہ باعزت طر یقے سے اجلاس بلا لیا جاتا، بہت سے فیصلے ہیں جن میں آئین کہتا ہے کہ بحیثیت مجموعی آئین کو پڑھا جائے ،جو باتیں پنجاب اسمبلی میں ہوئیں وہی صدر نے اعتراضات لگا دئیے ہیں، 29 فروری کو اجلاس ہونا ہی ہونا ہے اس کنفیوژن کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس کل ہو رہا ہے ، آج ہماری ملاقات ہوئی ہے جو چند دن پہلے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن )کے درمیان طے ہوا تھا یہ اسی کا تسلسل ہے ، ہم مل کر قومی اسمبلی میں سپیکر و ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کریں گے یہ معاہدہ ہوچکا ہے ۔

بلوچستان اسمبلی میں کل حلف برداری کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مل کر وزیر اعلیٰ اور دیگر عہدیداروں کا فیصلہ کریں گے ، ہم قومی اسمبلی اور بلوچستان کا مل کر فیصلہ کریں گے ، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور گورنر کا فیصلہ کل تک ہوجائے گا، کل اتفاق رائے سے دونوں عہدوں کے لئے ناموں کا اعلان کردیا جائے گا۔ ادھر بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں کمرا عدالت میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا صدر پاکستان نے قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلاکر بالکل ٹھیک کیا ہے ، پارٹی جیتی ہوئی ہے مگر مخصوص نشستیں نہیں دی جا رہیں ، الیکشن میں پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی ، پارٹی کو ختم کرنے کے لئے نو مئی کا استعمال کیا گیا ، ظلم سے پارٹی ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ سب سے مضبوط جماعت بن گئی ، شریف خاندان کا جنازہ نکل گیا ہے ،عوامی مینڈیٹ سے بڑی کوئی چوری نہیں ہو سکتی ۔ انہوں نے عوام کا مینڈیٹ چوری کیا ہے ، آئی ایم ایف کو لکھا جانے والا خط غداری قرار دیا جا رہا ہے فیٹف کی قانون سازی کی انہوں نے مخالفت کی تھی اور مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ اس کے کیسز ختم کئے جائیں ، میں جیل سے کوئی بھی چیز لکھ کر باہر نہیں بھیج سکتا ، آئی ایم ایف کو لکھا جانے والا خط میں نے ڈکٹیٹ کروایا ہے ،اس کے بعد اب تک پارٹی رہنمائوں سے ملاقات نہیں ہوئی ، ہو گی تو خط کے بارے میں علم ہو گا ، پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد آئی ایم ایف کو خط بھیج دیا جائے گا ، خط میں یہی لکھا جائے گا کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا ، تمام معیشت دان یہ کہتے ہیں کہ وسائل پیدا کئے بغیر قرض پر ملک نہیں چل سکتا ، ساری قوم کہہ رہی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے 20 نشستوں والے کو وزیراعظم بنایا جا رہا ہے ، سارا ملک انتخابات میں ان کے خلاف کھڑا ہوا ہے ، چیف الیکشن کمشنر کا استعفیٰ ضرور بنتا ہے ، چیف الیکشن کمشنر نے ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی ، نگران حکومتیں بھی ہمارے خلاف لگائی گئی ، الیکشن کمیشن انتخابات کے بعد بھی دھاندلی میں مصروف ہے ، الیکشن کمیشن سے کوئی امید نہیں ہے ،انہوں نے کہا ہفتے کے روز دوبارہ احتجاج کی کال دینے لگے ہیں ، صحافی کی طرف سے سوال کیا گیا کہ مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل اور محمود خان اچکزئی کو غدار کہتے تھے آج اپنے فائدے کے لئے ان سے رابطے بڑھا رہے ہیں ، اس پر انہوں نے کہا ہم ن لیگ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف ہیں جنہیں دھاندلی کر کے جتوایا گیا، دھاندلی کر کے ہرائی جانے والی جماعتوں کو اکٹھا کر رہے ہیں ان کے ساتھ مل کر ملک بھر میں احتجاج کریں گے ، سوال کیا گیا کہ اگر محمود خان اچکزئی آپ کے ساتھ مل جائیں تو کیا پھر وہ غدار نہیں ہوں گے ،بانی پی ٹی آئی سوال کا جواب دئیے بغیر چلے گئے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں