بیل آؤٹ پیکیج میں رکاوٹیں خاص مائنڈسیٹ کا آئینہ دار

بیل آؤٹ پیکیج میں رکاوٹیں خاص مائنڈسیٹ کا آئینہ دار

(تجزیہ: سلمان غنی) پی ٹی آئی کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈز کو لکھے جانے والے مکتوب میں آئندہ بیل آؤٹ پیکیج میں سیاسی استحکام کو مدنظر رکھنے کی درخواست ایک خاص مائنڈ سیٹ کی آئینہ دار ہے ۔

جسے اپنے سیاسی مفادات یقینی بنانے ،ریاست اور ریاستی اداروں کو دباؤ میں لانے کی منظم کوشش قرار دیا جا سکتا ہے ۔ایک جماعت اپنے اندرونی معاملات اور خصوصاً انتخابی عمل پر تحفظات کی بنا پر عالمی مالیاتی اداروں کو مداخلت کی دعوت  دے رہی ہے اور یہ کہنا چاہ رہی ہے کہ اگر اقتدار ہمارے پاس ہو تو سب ٹھیک اور اگر اقتدار ان کے پاس ہو تو سب غلط ،یہ طرزعمل کس طرح استحکام کا باعث بن سکتا ہے اور کیا وجہ ہے کہ سابق حکمران جماعت ملک میں عدلیہ سمیت اہم اداروں کی موجودگی کے باوجود بیرونی محاذ پر اپنا کیس پیش کر کے اور عالمی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کی اپیلیں کر کے پاکستان کو جگ ہنسائی کا ذریعہ بنانے پر مصر ہے کیا ان کے اس عمل پر آئی ایم ایف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کوئی یقین دہانی کرائے گا؟ ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا اور اس سے پہلے آئی ایم ایف کے ترجمان واضح کر چکے ہیں کہ ہم پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور ایسے ہی بیانات امریکا سمیت بعض دیگر ممالک کی جانب سے آئے ہیں جن میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تعلقات پاکستان کے ساتھ ہیں اور ہم دوطرفہ معاملات کو حکومتوں سے مشروط رکھتے ہیں سیاسی جماعتوں سے نہیں کیا یہ تحریک انصاف کی لیڈر شپ کیلئے پیغام نہیں اور بیرونی محاذ سے آنے والے ردعمل کے باوجود اگروہ اندرونی معاملات پر بیرونی محاذ گرم کرنے پر مصر ہیں تو پھر اس کا ریاست کی سطح پر نوٹس ہونا چاہئے ۔

اگر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ یہ سمجھتی ہے کہ وہ عالمی اداروں کو بروئے کار لانے کی بات کر کے حکومتوں یا اداروں کو دباؤ میں لے آئے گی تو یہ ممکن نظر نہیں آتا البتہ انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی حکومت پر یہ ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کی شکایات اور تحفظات کے ازالہ کیلئے قدم بڑھانے اور ممکنہ حد تک انہیں دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ جب معاشی استحکام کی بات کی جاتی ہے تو یہ سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں اور سیاسی استحکام عام سیاسی قوتوں کے بڑے کردار کے باعث ہی یقینی بنتا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں