منتخب ایوانوں میں احتجاج، کیا دائروں کا سفر جاری رہے گا

منتخب ایوانوں میں احتجاج، کیا دائروں کا سفر جاری رہے گا

(تجزیہ:سلمان غنی) منتخب ایوانوں میں اراکین کے حلف اور حکومت سازی کے عمل کے دوران پیدا شدہ کیفیت اور تلخ نعرہ بازی کا عمل آنے والے حالات اور رحجانات کا پتہ دے رہاہے اور ماہرین نے کہنا شروع کر دیا کہ۔۔۔

 ملک میں سیاسی و اقتصادی استحکام ممکن نہیں بلکہ عوام اور حکومتوں کے مسائل بھی بڑھیں گے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر کیوں دائروں کا سفر جاری ہے دوسری جانب معاشی ماہرین کی تشویش یہ ہے کہ حکومت معاشی چیلنجز سے کیسے نبردآزما ہوگی،جان لیوا قسم کے معاشی و مالی مسائل کو حل کرنے کیلئے نئی حکومت کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے ،ملکی قرضے جو ستر کی دہائی میں 10ارب سے زائد نہیں تھے آج 130ارب ڈالر سے زائد ہو چکے اور حقیقت یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات کے بعد حکومت کے پاس عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ نہیں اور گرمی کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کے بلوں سے عوام میں غیض و غضب کا لاوا پھٹ سکتا ہے اور حکومت میں شامل جماعتوں نے مہنگائی کی دہائی پر عوام کو یقین دلایا تھا کہ بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی لائی جائے گی لیکن حکومت سازی کے عمل کے دوران ہی سات روپے سے زائد فی یونٹ بجلی نرخ میں اضافہ کے اعلان کے بعد عوام کے اندر تشویش کی لہر دوڑ چکی،آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرنا حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے اور اگر حکومت توانائی کی قیمتیں بڑھانے کی آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں کرے گی تو اگلی قسط کیسے ملے گی لہٰذا نئی حکومت کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہیں اور اسے ایک ایسے وزیر خزانہ کی ضرورت ہوگی جو معیشت کی سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہو اور اسے مسائل زدہ عوام کی مشکلات کا بھی احساس ہو اس لئے اب اتحادی حکومت کو 16ماہ کے برعکس اپنا انداز حکمرانی بدلنا ہوگا،کیا نامزد وزیراعظم شہباز شریف ایسا کر پائیں گے فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر عوام کو فوری ریلیف کے اقدامات نہیں ہوں گے تو پھر حکومت عوام کے غیض و غضب کا مقابلہ نہیں کر پائے گی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ متوقع وزیراعظم کو اپنے پہلے خطاب میں عوام کوممکنہ ریلیف فراہم کرنے کا عندیہ دینا ہوگا اور اس عزم کا اظہار کرنا ہوگا کہ اب قربانی پاکستان کی اشرافیہ کو دینا ہوگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں