قومی اسمبلی:ایاز صادق سپیکر،غلام مصطفیٰ ڈپٹی سپیکر منتخب:علی امین گنڈا پور خیبرپختونخوا اور سرفراز بگٹی بلوچستان کے وزیراعلیٰ بن گئے

قومی اسمبلی:ایاز صادق سپیکر،غلام مصطفیٰ ڈپٹی سپیکر منتخب:علی امین گنڈا پور خیبرپختونخوا اور سرفراز بگٹی بلوچستان  کے وزیراعلیٰ بن گئے

اسلام آباد،پشاور، کوئٹہ(خصوصی نیوز رپورٹر، نمائندہ دنیا ،ایجنسیاں)سولہویں قومی اسمبلی نے مسلم لیگ ن کے ایاز صادق کو سپیکر،پیپلزپارٹی کے غلام مصطفی شاہ کو ڈپٹی سپیکر منتخب کرلیا جبکہ علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ پختونخوا منتخب ہوگئے۔

 سرفراز بگٹی بلوچستان کے بلامقابلہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے آج ووٹ لیں گے ۔سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا، جے یو آئی (ف)اور بی این پی (مینگل)نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ۔ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن اور سربراہ بی این پی سردار اخترمینگل اور ان کی جماعتوں کے ارکان اجلاس میں نہیں آئے ۔ سنی اتحاد کونسل کے بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا جب تک ایوان میں اراکین کی تعداد پوری نہیں ہو جاتی کس طرح سے الیکشن ہو سکتا ہے ،جب قومی اسمبلی میں بے ضابطگیاں ہوں گی تو نعروں سے گلا خراب تو ہوگا، گلا خراب ہو یا کٹ جائے  ہم نے آواز اٹھانی ہے ۔مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی رانا تنویر نے اظہار خیال کرنا شروع کیا تو سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے شور شرابہ شروع کر دیا، جس پر سپیکر نے کہا جب آپ لوگ بات کر رہے تھے تو سب نے خاموشی سے سنا، آپ لوگوں کو بھی دوسروں کو خاموشی سے سننا چا ہئے ، رانا تنویر نے کہا ان میں جواب سننے کا حوصلہ نہیں، ان کو خیبر پختونخوا میں کچھ نظر نہیں آتا،عمر ایوب کونسی پارٹی میں نہیں گئے ،یہ بہت بڑے لوٹے ہیں، 2018 کا الیکشن سب سے زیادہ متنازعہ تھا۔خیبر پختونخوا میں بھی سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوا، پوچھتا ہوں کیا وہاں دھاندلی نہیں ہوئی؟جو شور مچارہے ہیں وہ نواز شریف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑچکے ہیں۔ایوان میں دوسرے دن بھی ہلڑ بازی اور عدم برداشت کے مناظر دیکھنے میں آئے ،ایوان کے دونوں جانب سے ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی اور سپیکر ڈائس کے گرد جمع رہے ۔سپیکر گیلری میں موجود ایک شخص نے گھڑی چور کا نعرہ لگایا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان سپیکر ڈائس اور سپیکر گیلری کے گرد جمع ہو گئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس شخص کو گیلری سے باہر نکالا جائے ۔ سنی اتحاد کونسل کے مطالبے پر سپیکر قومی اسمبلی نے حکم دیا کہ نعرے بازی کرنے والے شخص کو باہر نکالا جائے ۔

قومی اسمبلی کے سکیورٹی عملے نے فوری طور پر اس شخص کو گیلری سے باہر نکال دیا۔انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کے دوران سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے چور چور ڈاکو ڈاکو کے نعرے لگاتے ہوئے جوتے لہرا دئیے ۔مسلم لیگ ن کے صدر وزیر اعظم کے لئے نامزد امیدوار شہباز شریف بھی اس موقع پر موجود تھے جبکہ سابق وزیر اعظم مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف کی آمد کے موقع پر بھی دونوں جماعتوں کے احتجاج کے دوران ایوان میں سخت کشیدگی پیدا ہو گئی اور ارکان آمنے سامنے آ گئے ۔راولپنڈی اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے لیگی ارکان سمیت رانا تنویر حسین سے سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تلخ کلامی ہو گئی ۔سپیکر نے رولنگ دی کہ کوئی ممبر ایوان میں نعرے نہیں لگا سکتا اور نہ ہی پلے کارڈز لہرا سکتا ہے ، دونوں اطراف میں آئین اور قانون کے ماہر بیٹھے ہیں، اس ایوان کا ایک ڈیکورم ہے ، اس کو ملحوظ خاطر رکھیں۔بعد ازاں سپیکر کے انتخاب کے عمل کا آغاز کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ آئین اور قانون کے تحت آپ خود الیکشن کمیشن گئے ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن انتخابات سے متعلق فورم ہے قومی اسمبلی نہیں،سپیکر کیلئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار ایاز صادق جبکہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عامر ڈوگر تھے ، خفیہ رائے شماری کے بعد فیصلہ سنایا گیا جس کے تحت سردار ایاز صادق 199ووٹ لے کر سپیکر منتخب ہوگئے ، مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عامر ڈوگر نے 91ووٹ حاصل کئے ،سپیکر کے انتخاب کے لئے کل 290ووٹ کاسٹ ہوئے ان میں ایک ووٹ ضائع ہوا۔مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے ارکان کے جھرمٹ میں سپیکر کے انتخاب کے موقع پر اپنا ووٹ کاسٹ کیا ۔قبل ازیں نواز شریف کی آمد پر (ن) لیگ کے اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا ،سنی تحریک کے ارکان نے چور چور کے نعرے لگائے اسی نعرے بازی کے دوران انہوں نے ووٹ کاسٹ کیا ۔نواز شریف ووٹ ڈالنے کے بعد ایوان سے واپس چلے گئے ۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو جب ووٹ کاسٹ کرنے آئے تو سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا ۔

سپیکر راجہ پرویز اشرف نے ایاز صادق سے قومی اسمبلی کے 23 ویں سپیکر کی حیثیت سے حلف لیا،سپیکر منتخب ہونے کے بعد ایاز صادق مخالف امیدوار ملک عامر ڈوگر کی نشست پر گئے اور ان کے ساتھ مصافحہ کیا، ایاز صادق نے حامد رضا اور عمر ایوب خان سے بھی مصافحہ کیا جبکہ یوسف رضا گیلانی نے پرجوش طریقے سے گلے لگایا ،سپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سردار ایاز صادق نے کہا سیاست میں تلخیاں آگئی ہیں، جو پاکستان کیلئے نقصان دہ ہیں، کوشش ہوگی حکومت اور اپوزیشن میں تفریق نہ کروں،سپیکرشپ کیلئے اعتماد کرنے پر پرنواز شریف اور اتحادی رہنماؤں سابق صدر آصف زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، چودھری شجاعت ، متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان ) کے خالدمقبول صدیقی اور دیگر کا شکرگزار ہوں، جمہوری عمل میں حصہ لینے پر سنی اتحاد کونسل کے عامر ڈوگر کا شکریہ ادا کرتاہوں۔ عامر ڈوگر مجھے بھائی کہتے ہیں، میں انہیں بڑا بھائی بن کردکھاؤں گا،سنی اتحاد کے دیگرارکان سے بھی میرا ایک رشتہ ہے ، حکومت، اپوزیشن گاڑی کے دو پہیے ہیں۔بعد ازاں ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کرایا گیا، جس میں مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار غلام مصطفیٰ شاہ نے 197ووٹ لئے جبکہ سنی اتحاد کے امیدوارجنید اکبر 92ووٹ لے سکے ۔سپیکر سردار ایاز صادق نے ڈپٹی سپیکر غلام مصطفی شاہ سے حلف لیا ۔ عامر ڈوگر نے سپیکر بننے پر ایاز صادق کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہم نے مخصوص نشستوں کے بغیر یہ الیکشن لڑا، میرے ووٹ 91 نکلے اور آپ کے 199 ووٹ نکلے ، میں سنگل پارٹی ہوں اور آپ 7 پارٹیاں ہیں، 8 فروری کو فارم 45 کے مطابق نتیجہ آتا تو میرے ووٹ 225 ہوتے ، ہمارے ووٹرز نے مختلف انتخابی نشانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مہر لگائی،یہ الیکشن نہیں سلیکشن تھی جو نیلامی کے ذریعے کی گئی، کل تعارفی سیشن تھا میرے لوگوں کے چہرے اترے ہوئے تھے ، الیکشن ہوتا ہے تو لوگوں میں امید پیدا ہوتی ہے ، آج پورا ملک سوگوار ہے ،ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اور قومی اسمبلی کی 80 سیٹیں چھینی گئیں، ہمیں 94 سیٹوں کا نتیجہ دیا گیا۔

ایک لوٹا بن گیا، دو کے نوٹیفکیشن روکے گئے ،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، یہ سب کتابی باتیں ہیں، ثابت ہوا ہے کہ ووٹ ڈالنے والوں کے مینڈیٹ کا یہاں احترام نہیں کیا گیا، اگر یہی ڈرامہ کرنا تھا تو قوم کے 50 ارب روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟مہنگائی ہے ، بجلی مہنگی ہے ، لوگ غربت کی وجہ سے مرر ہے ہیں، ہماری جیتی ہوئی سیٹوں کا مینڈیٹ ہمیں واپس کیا جائے ، ہماری مخصوص نشستیں ہمیں دلائی جائیں۔جنید اکبر نے کہا مقبوضہ قومی اسمبلی کو نہیں چلنے دیں گے ،کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، ہم یہاں مفاہمت یا بات کرنے نہیں آئے ،ہم اسمبلی میں قانون سازی کریں گے اور نہ کرنے دیں گے ، ہم اسمبلی کو مانتے ہی نہیں ہیں، یہ اسمبلی اس وقت تک نہیں چلے گی جب تک کسی کا حق مار کر آنے والے اجنبی لوگ نکالے نہیں جاتے ۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا بانی پی ٹی آئی کے نمائندے عوام کی طاقت سے پارلیمنٹ میں آگئے ہیں،عوام کے مینڈیٹ کو بدلنا غداری ہے ۔پاکستان انتہائی خطرناک حالات سے گزر رہا ہے ، اتنا چارج پارلیمنٹ ہے نہ کوئی کسی کو بات کرنے دیتا ہے نہ کوئی بات سنتا ہے ،پاکستان کی سیاست یہ ہوگئی کہ جو بکتا ہے وہ وفادار، جو نہ بکے وہ غدار،نوازشریف کا نعرہ تھا ووٹ کو عزت دو،ہم سے حلف لیں کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہیں ہوگا،جن ججوں نے مارشل لا کی حمایت کی ان کی تنخواہیں بھی واپس لی جائیں،قرارداد منظور کی جائے کہ جن ججوں نے مارشل لا کی حمایت نہیں کی ان کی ہیرو قرار دیا جائے ۔ محمود خان اچکزئی کی افتتاحی تقریر پر سنی اتحاد کونسل کے ارکان جوش میں آ گئے نشستوں سے کھڑے ہو کر دیر تک محمود خان اچکزئی کے لیے ڈیسک بجاتے رہے ۔ وہ اپنی نشست پر بیٹھے تو متعدد ارکان نے محمود خان اچکزئی کا ماتھا چوم لیا بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ان کے زندہ باد کے نعرے لگا دئیے ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے کہا محمود خان اچکزئی اپنی سیاسی کمزوریوں کا ملبہ اداروں پر پھینکنا چاہتے ہیں۔ ن لیگ کے رہنما احسن اقبال کی تقریر کے دوران سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے شدید احتجاج کیا اور نعرے لگاتے رہے ۔

احسن اقبال نے کہا ہم نے کبھی پاکستان کی ریاست پر حملہ نہیں کیا،ان کے لیڈر کہتے تھے دو قانون والی قومیں تباہ ہو جاتی ہیں،اگر آپ پر جھوٹے مقدمے ہیں تو عدالتوں میں دفاع کریں۔مینڈیٹ کے مطابق خدمت کریں ،ایوان کو روکنے کی دھمکیاں نہ دیں،یہ ایوان آپ کی نہیں 24 کروڑ عوام کی ملکیت ہے ۔ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھنا بہت آسان ہوتا ہے ،جو مجھے ماحول نظر آ رہا ہے وہ پولرائزیشن کی نشاندہی کر رہا ہے ، قوم کو بحران سے نکالنے کیلئے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ،کیا ہم وہی تاریخ دہرائیں گے جو 75 سالوں سے ملک میں ہو رہا ہے ۔پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید احمد شاہ نے بھی نومنتخب سپیکر ڈپٹی سپیکر کو مبارکباد دی۔دریں اثنا قومی اسمبلی میں ایوان کی کارروائی کے حوالے سے پہلی تحریک کثرت رائے سے منظور کرلی گئی،پاکستان پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے تحریک پیش کی جس میں 9 مارچ اور 14 مارچ کو صدر اور سینیٹ کے انتخابات کے لئے قومی اسمبلی ہال استعمال کرنے کی اجازت طلب کی گئی،ایوان نے کثرت رائے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر کی تحریک منظور کرلی۔ادھر نو منتخب سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں خیبر پختونخوا کے 22 ویں قائد ایوان کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ آزاد حیثیت میں ڈیرہ اسماعیل خان سے الیکشن جیتنے والے علی امین گنڈا پور کو سنی اتحاد کونسل کی حمایت حاصل تھی جبکہ ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن کے عباد اللہ خان تھے جنہیں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ سپیکر کے پی اسمبلی نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ علی امین گنڈا پور نے 90 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل امیدوار عباداللہ نے 16 ووٹ حاصل کیے ، اس طرح علی امین گنڈا پور 90 ووٹ لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ۔مزید برآں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بلامقابلہ وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوگئے ۔سرفراز بگٹی کے علاوہ کسی رکن کے وزارت اعلیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع نہیں ہوئے ۔بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے لیے سرفراز بگٹی واحد امیدوار ہیں،تاہم پھر بھی سرفراز بگٹی کے حق میں آج بلوچستان اسمبلی میں ووٹنگ ہوگی،65 ارکان بلوچستان اسمبلی میں سے 33 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے ۔میر سرفراز بگٹی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا پیپلزپارٹی صوبے کے معاملات حل کرنے کے لئے سیاسی ڈائیلاگ پر یقین رکھتی ہے ، ناراض لوگ تشدد کے بجائے مذاکرات کا راستہ اپنا ئیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں