اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط،وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات:انکوائری کمیشن بنے گا:وفاقی حکومت کا اعلان:عدلیہ میں مداخلت ناقابل برداشت:فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط،وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات:انکوائری کمیشن بنے گا:وفاقی حکومت کا اعلان:عدلیہ میں مداخلت ناقابل برداشت:فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ

اسلام آباد(نمائندہ دنیا ،دنیا نیوز، نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک)اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججز کی طرف سے عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت سے متعلق خط کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ان کے چیمبر میں ایک گھنٹہ 25منٹ ملاقات کی۔

 وفاقی حکومت نے اعلان کیا کہ معاملے کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن بنایا جائے ،ادھر دوسرے روز بھی سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا، سپریم کورٹ نے اپنے اعلامیہ میں کہا عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے معاملے پر وزیرِاعظم شہباز شریف سپریم کورٹ پہنچے جہاں انہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی،ملاقات میں وزیراعظم کے ہمراہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان بھی شامل تھے ، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصورعلی شاہ اور رجسٹرار سپریم کورٹ جزیلہ اسلم بھی ملاقات میں موجود تھیں۔وزیراعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس سے ملاقات ایک گھنٹہ 25 منٹ جاری رہی ،ملاقات میں ججز کے خط کے علاوہ سپریم کورٹ میں حکومتی مقدمات بالخصوص ٹیکسز سے متعلق مقدمات کو فوری سماعت کیلئے مقرر کرنے اور ان کے جلدفیصلے کرنے کے حوالے سے بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد فل کورٹ اجلاس دوبارہ طلب کر لیا، بعد ازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت فل کورٹ کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا،جس کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے 26 مارچ 2024ء کو ایک خط موصول ہوا، خط میں لگائے گئے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس نے اسی دن ایک میٹنگ بلائی، چیف جسٹس نے اڑھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی میٹنگ میں تمام ججز کے تحفظات کو انفرادی طور پر سنا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ عدلیہ میں مداخلت برداشت نہیں ہوگی، چیف جسٹس نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر ججز سے افطار کے بعد ملاقات کی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہائیکورٹ کے ججز کو اپنے گھر بلایا، چیف جسٹس نے اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں ججز کو انفرادی طور پر سنا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل، وزیر قانون و انصاف، سینئر جج اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات بھی کی۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز نے اتفاق رائے سے چیف جسٹس کی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کا فیصلہ کیا۔وزیر اعظم سے ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق ہوا،وزیراعظم شہبازشریف نے چیف جسٹس سے ملاقات میں ریاستی اداروں کو ہدایات دینے کی یقین دہانی کروائی، وزیراعظم نے فیض آ باد دھرنا کیس کی روشنی میں ریاستی اداروں کے حوالے سے قانون سازی کی یقین دہانی بھی کروائی۔ شہباز شریف نے یقین دلایا کہ عدالتی آزادی اور خودمختاری پر کوئی قدغن نہ آنے دیں گے اور اس سلسلے میں تمام اقدامات کئے جائیں گے ، فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے پیراگراف53 کے مطابق قانون سازی کی جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو بطورہ ادارہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا، عدلیہ کی آزادی پر کسی صورت میں سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا،اجلاس میں پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت ایک انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی گئی اور کہا گیا کہ انکوائری کمیشن کی سربراہی کسی ریٹائرڈ جج کو دی جائے ،وزیراعظم نے عہد کیا کہ کمیشن کی تشکیل کی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا جائے گا۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عدلیہ کی آزادی وہ بنیادی ستون ہے جس کے سبب قانون کی حکمرانی اور مضبوط جمہوریت قائم ہوتی ہے ۔ادھر وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سپریم کورٹ ججز کو ایک چٹھی میں شکایات پہنچائی، خط میں کچھ ایسے واقعات کا ذکر کیا جن کا تعلق پچھلی حکومت سے ہے ، خط میں پچھلے چیف جسٹس کے دور سے متعلق زیادہ تر چیزیں تھیں،کل چیف جسٹس پاکستان نے تمام ججز کے فل کورٹ میٹنگ کی، چیف جسٹس نے خواہش کا اظہار کیا کہ وزیراعظم اس معاملے میں گفتگو کریں،اٹارنی جنرل کو انفارم کیا گیا اور پھر ایک چٹھی بھی موصول ہوئی، معاملے کی سنجیدگی کو سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ میں خود جاؤں گا، چیف جسٹس اور وزیراعظم کی ملاقات ڈیڑھ گھنٹے جاری رہی، ملاقات میں چیف جسٹس اور سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ موجود تھے ،اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، حکومت کا فرض ہے کہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے ،کسی بھی ادارے کے معاملے میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے ، اچھی ساکھ والے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کرائی جائے گی۔

کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن بنایا جائے گا، وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگلے دو چار روز میں اس کو نوٹیفائی کردیا جائے گا، سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز کے ناموں پر غورکیا جائے گا، کمیشن کا سربراہ کون ہوگا وقت سے پہلے نام نہیں لے سکتا۔وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وزیراعظم آج کابینہ میں یہ معاملہ رکھیں گے ، یہ معاملہ ہم عدلیہ پر چھوڑتے ہیں کہ یہ خط مس کنڈکٹ ہے یا نہیں، ٹی او آرز میں اس خط اور ماضی کے معاملات بھی شامل ہوں گے ، ہم سمجھتے ہیں یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے ، اس کی انکوائری ہونی چاہیے ۔ان کا کہنا تھا کہ تاریخ فیصلہ کرتی ہے کون غلط ہے کون نہیں، ہائی کورٹ کے ججز ایک مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں، ہرکسی کی اپنی اپنی ڈیوٹیز ہیں، میں سمجھتا ہوں جب ایسے معاملات آئیں تو ان کو دبایا نہ جائے ۔انہوں نے مزیدکہا کہ وزیراعظم نے ملاقات میں اہم مسائل کی نشاندہی کی، ملاقات میں بعض اہم قومی امور بشمول ٹیکس معاملات پر بات ہوئی۔وزیراعظم کا عزم ہے کہ ملک آئین کے مطابق چلنا چاہئے ، وزیراعظم کا ویژن تھا کہ ایک رکنی کمیشن بنایا جائے ، آج بڑے خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوئی، وزیراعظم نے کہا کہ ادارہ جاتی مداخلت نہیں ہونی چاہئے ، یہ کوئی آئینی بحران نہیں ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا یہ باتیں آج سے 13 ماہ پہلے ہو جاتیں، ٹائمنگ کے حوالے سے مجھے اس بات کی تکلیف ہے ، ایسے معاملات کو قالین کے نیچے چھپانے کے بجائے منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں