پنجاب اسمبلی: ہتک عزت بل منظور، صحافیوں اور اپوزیشن کا احتجاج

پنجاب اسمبلی: ہتک عزت بل منظور، صحافیوں اور اپوزیشن کا احتجاج

لاہور(سیاسی رپورٹر سے، دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی)پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے ہتک عزت بل 2024ئکو ایوان سے منظور کر الیا،اپوزیشن نے بل کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔۔۔

 صحافیوں نے بھی پریس گیلری سے واک آؤٹ کر کے احاطہ اسمبلی میں احتجاج ریکارڈ کرایا اور ملک گیر احتجاج کی کال دیدی ،منظور کردہ بل کا اطلاق الیکٹرانک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ہوگا ، فیس بک ، ٹک ٹاک ،ٹوئٹر ،یوٹیوب ،انسٹا گرام پر بھی غلط خبر یا کردار کشی پر تیس لاکھ روپے ہرجانہ ہوگا،کیس سننے کیلئے ٹربیونلز قائم کئے جائیں گے جو 180دنوں میں فیصلے کے پابند ہوں گے ،ہتک عزت بل کے تحت 30لاکھ روپے کا ہرجانہ ہو گا ۔تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز مقررہ وقت کی بجائے 2 گھنٹے 24 منٹ کی تاخیر سے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کی زیرصدارت شروع ہوا۔اجلاس کے باضابطہ آغازسے قبل ہی اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر کی قیادت میں اپوزیشن نے بل کیخلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے ہنگامہ برپا کردیا، انہوں نے کالا قانون نامنظور ، کالے کرتوت نامنظور کے نعرے لگائے جبکہ اپنی نشستوں پر بل کے خلاف پلے کارڈز بھی آویزاں کر دیئے ۔

سرکاری بزنس میں وزیر پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمن نے ہتک عزت بل پنجاب 2024ء ایوان میں پیش کیا۔حکومت نے اپوزیشن کی ترامیم مسترد کرتے ہوئے بل منظورکرا لیا ، قائد حزب اختلاف احمد خان بھچر اور دیگر اپوزیشن ارکان نے کہا کہ ہتک عزت بل 2024 کالا قانون ہے ،یہ آئین کی کئی شقوں سے متصادم ہے ، آزادی اظہار رائے پر قدغن لگے گا ۔ اعجاز شفیع نے کہا کہ کہیں سے ڈکٹیشن آئی ہے کہ ہتک عزت بل منظور کروارہے ہیں ۔اجلاس کے دوران چیئر نے صوبائی وزرا کو صحافیوں کو مناکر واپس لانے کیلئے بھیجا لیکن صحافیوں نے انکار کردیا۔ اپوزیشن رکن ندیم قریشی نے کہا کہ آج کا دن ملکی تاریخ میں بدترین دن ہے ۔ رائے احسن کھرل نے کہا کہ اگر کوئی بلوچستان اورسندھ سے کہہ دے فلاں ٹبر چور ہے تو اس پر قانون کیسے لاگو ہوگا ۔ مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ بل کو دوبارہ سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کی ضرورت نہیں ۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے بل بارے اپوزیشن کے تحفظات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ کسی پر الزامات لگانے کے بعد ثبوت دینا ہوں گے ۔ نقطہ اعتراض پر حکومتی رکن امجد علی جاوید نے بتایا کہ مجھے ایوان میں مسائل پر بات کرنے کی ‘‘ڈوز ’’مل گئی ،افسر شاہی کے خلاف بولنے پر ڈپٹی کمشنر نے میرے بھانجے کا ٹرانسپورٹ اڈا بند کر نے کی دھمکی دی ہے ، سپیکر نے رپورٹ طلب کر لی ،اجلاس کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیاگیا۔ دریں اثنا صدر لاہورپریس کلب ارشد انصاری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ملک بھر میں احتجاج کی کال دی جائے گی، بل کے خلاف تمام صحافتی تنظیمیں اے پی این ایس، سی پی این ای، ایمنڈ، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ اور کلبز ایک پیج پر ہیں۔

قبل ازیں بل کے حوالے سے صحافتی تنظیموں کے نمائندوں کی سپیکر ملک محمد احمد اور وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری سے تین گھنٹے کی مشاورت ہوئی ، صحافتی تنظیموں نے بل موخر کرنے کا مطالبہ کیاجو مسترد کر دیا گیا۔ ادھر کونسل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(سی پی این ای)نے اپنے بیان میں ہتک عزت بل کوآزادی صحافت پر بڑا حملہ اور کالا قانون قرار دیتے ہوئے یکسر مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ انتہائی عجلت میں منظور کئے جانیوالے بل میں نہ صرف متوازی عدالتی نظام قائم کیا جارہا بلکہ خود ساختہ ٹریبونل کو30لاکھ سے تین کروڑروپے تک جرمانے کا اختیار بھی دیا جارہا ،جس سے انتظامیہ کو اختلافی آوازیں دبانے کا لا محدود موقع ملے گا،ایسے کالے قانون کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے، دیگر صحافتی تنظیموں سے مل کراحتجاج کیا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں