پرویزالہٰی کی ضمانت منظور،جیل سے رہا ہوکرگھر پہنچ گئے:ٹیریان کیس:عمران خان کیخلاف درخواست خارج

پرویزالہٰی کی ضمانت منظور،جیل سے رہا ہوکرگھر پہنچ گئے:ٹیریان کیس:عمران خان کیخلاف درخواست خارج

لاہور (کورٹ رپورٹر ، اپنے خبر نگار سے ،کرائم رپورٹر ،دنیا نیوز) پی ٹی آئی رہنماسابق وزیر اعلی ٰپنجاب پرویز الٰہی کو تمام کیسز پر ضمانت کی منظوری کے بعد کوٹ لکھپت جیل سے رہا کر دیا گیا۔

جیل کے باہر سابق وزیر اعلیٰ کے وکلا اور دوست موجود تھے جو ان کو گاڑی میں بٹھا کر گھر روانہ ہو گئے ۔پرویز الٰہی کو اینٹی کرپشن میں من پسند افراد کو ٹھیکے دینے اور پنجاب اسمبلی میں جعلی بھرتیوں کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی میں بھرتیوں کے کیس میں پرویزالٰہی کی درخواست ضمانت منظورکرلی۔ جسٹس سلطان تنویر نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔دوران سماعت وکیل پرویز الٰہی نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ اینٹی کرپشن نے مقدمہ دو سال کی تاخیر سے درج کیا۔ وکیل عامر سعیدراں نے عدالت کو بتایا کہ پرویز الٰہی نے کسی امیدوار سے بھرتی کی رقم وصول نہیں کی۔اینٹی کرپشن عدالت لاہور نے پنجاب اسمبلی میں مبینہ غیر قانونی بھرتیوں کے مقدمہ پر سماعت کی۔ادھر آئی جی پنجاب کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں رپورٹ جمع کرا دی گئی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پرویز الٰہی کو لاہور میں درج 3، فیصل آباد کے چار کیسز میں نامزد کیا گیا جبکہ راولپنڈی کے 11 مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے ۔ہائیکورٹ میں جمع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پرویز الٰہی ضلع اٹک اور گوجرانوالہ کے ایک، ایک کیس میں نامزد ہیں۔ادھر تحریک انصاف کے مرکزی صدر پرویزالٰہی نے کوٹ لکھپت جیل سے رہائی کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ اﷲپاک کا بہت بہت شکر ہے کہ اس نے مجھے سرخرو کیا اور مجھے حوصلہ دیا کہ میں ثابت قدم رہوں، میں ان ججوں کا مشکور ہوں جنہوں نے حق اور سچ کا ساتھ دیا اور مجھے رہائی ملی، میں ان سب لوگوں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے میرے لیے دعائیں کیں اور اس مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔ پرویزالٰہی نے کہا کہ گجرات کے لوگوں کو بہت زیادتیاں اور ظلم سہنا پڑا، گجرات میں ہمارا مینڈیٹ تک چرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ شجاعت صاحب کے بچوں سے اس وقت تک کوئی بات نہیں ہو گی جب تک ہمارا مینڈیٹ واپس نہیں ہو گا، گجرات میں جن لوگوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں وہ جب تک معاف نہیں کریں گے تب تک ان سے کوئی بات نہیں ہو گی، مجھے پکڑوانے میں اور میرے ساتھ زیادتی کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار محسن نقوی کا رہا ہے ۔پرویزالٰہی نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے ساتھ تھا، ہوں اور رہوں گا۔

 اسلام آباد (اپنے نامہ نگار سے ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں چھپانے پر نااہلی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے  ہوئے خارج کر دی ۔ درخواست گزار کے وکیل حامد علی شاہ نے استدعا کی عدالت کی معاونت کے لئے دو سے تین ہفتوں کا وقت دے دیا جائے ۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دئیے کہ دو ججز پہلے ہی درخواست خارج کر چکے ہیں اور اکثریتی فیصلہ پہلے ہی آ چکا ہے جو درخواست پہلے ہی خارج ہو چکی ہے اس میں کیسے وقت دے دیں ۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری ، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل تین رکنی لارجر بینچ نے شہری محمد ساجد کی درخواست پر سماعت کی ۔ وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا کہ یہ معاملہ پہلے طے ہو چکا ہے ۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے نعیم حیدر پنجوتھہ سے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں ؟ آپ اس کیس میں وکیل ہیں ؟ اس پر نعیم پنجوتھہ نے بتایا کہ میں بطور لا آفیسر عدالت کی معاونت کر رہا ہوں ۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ دو ججز اپنا فیصلہ دے چکے تھے فیصلہ سربمہر لفافے میں سب کے سامنے کھولا گیا ۔بعدازاں عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے خلاف ٹیریان وائٹ کیس خارج کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ، جس کے مطابق جسٹس محسن کیانی اور جسٹس ارباب طاہر نے تفصیلی فیصلہ دیا ،دونوں ممبرز نے بانی پی ٹی آئی کی نااہلی درخواست کو خارج قرار دیا ، بینچ کے اکثریتی فیصلے میں پٹیشن خارج کر دی گئی ، ہمارا خیال ہے کہ اس کیس میں مزید کارروائی کی ضرورت نہیں ۔ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفرکیس میں بانی پی ٹی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل اور سٹیٹ کونسلز کو طلب کرتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ روز چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی تو ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ پیش ہوئے اور کہا کہ آج دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا ، حامد علی شاہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے اس پر فیصلہ نہیں دیا مگر اپنی ججمنٹ میں ذکر کیا ہے ، سائفر کو پبلک کیا گیا، اس پر میں چارج فریم پڑھوں گا ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کمیونیکیشن آف انفارمیشن کوئی جرم ہے ؟ عدالت نے سوال اٹھایا تھا کہ سائفر کا متن کہاں ہے ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا محض معلومات دینا بھی جرم بنتا ہے ؟ پراسکیوٹر نے کہا کہ جی ، وہ بھی جرم بنتا ہے ، بانی پی ٹی آئی کے اس عمل سے قومی سلامتی کو نقصان پہنچا ،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کب سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ تھا ہی کیا جو آ گیا تھا ؟ آپ ہمیں بند لفافے میں ہی دکھا دیتے کہ کچھ آیا تھا ، اس موقع پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ صاحب نے کہا تھا وقت آنے پر دکھا دوں گا ، میرے خیال میں اب وہی وقت آ چکا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی ساری باتیں مان لیتے ہیں صرف اتنا بتائیں جرم کیا ہوا ہے ؟کس بیرونی طاقت سے ہمارے تعلقات خراب ہوئے ؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوئے ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خرابی کے شواہد کیا ہیں ؟ آپ نے شواہد میں ڈی مارش پیش نہیں کیا ؟ ڈی مارش کوئی خفیہ دستاویز تو نہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں ایک ملک کو آپ نے خبردار کیا کوئی شکریہ تو نہیں کہا ہو گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس بیرونی طاقت کو ان سے فائدہ ہوا ہے ؟ خارجہ تعلقات خراب ہوئے تو کسی کے کہنے سے خراب تو نہیں ہوں گے ،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ وہ کون شخص تھا کیا وہ ریاست امریکہ کی طرف سے بات کر رہا تھا ؟ ، چیف جسٹس نے کہا کہ شاہ صاحب آپ نے ایک بندے کو ساری عمر کے لئے جیل میں ڈال دیا ہے ،کہاں ہیں وہ دستاویزات جس میں ہو کہ ہمارے تعلقات خراب ہوئے ہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا پاکستانی سفارت خانے کے سربراہ کو کیپٹل ہل میں بلایا گیا تھا ؟ سفارتی تعلقات میں تو یہ پہلا قدم ہوتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا امریکہ نے ویزے بند کر دئیے ، طلبہ کے داخلے بند کر دئیے ، تجارت بند کر دی ، ایسا کچھ ہے ؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے جلسے میں دئیے گئے بیان کی تو امریکہ نے تردید کی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اگر کہیں تو کیا ہمیں سائفر کی کاپی دیکھا دیں گے ؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ دکھا دیں گے ، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ اتنا سادہ ہے کہ ہم کہیں اور آپ سائفر دکھا دیں گے ؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر عدالت کہے تو دکھایا جائے گا ، ٹرائل کورٹ نے ایسا نہیں کہا تھا ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ خوفناک راستے پر چل رہے ہیں ، پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ دستاویز صرف عدالت کو دکھانے کیلئے لا سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالت اس دستاویز سے متعلق فیصلے میں نہیں لکھ سکتی تو پھر کیا ضرورت ہے ؟ ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں