سیکرٹری دفاع پیش نہ ہوئے،احمدفرہاد کی بازیابی کیلئے جمعہ تک مہلت:بندہ ریکور نہیں ہوا تو ریاست کی ناکامی ہوگی،جسٹس محسن کیانی

سیکرٹری دفاع پیش نہ ہوئے،احمدفرہاد کی بازیابی کیلئے جمعہ تک مہلت:بندہ ریکور نہیں ہوا تو ریاست کی ناکامی ہوگی،جسٹس محسن کیانی

اسلام آباد (اپنے نامہ نگار سے ،مانیٹرنگ ڈیسک،دنیا نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کیس میں سیکرٹری دفاع پیش نہ ہوئے ،عدالت نے ان کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے شاعر احمد فرہاد کو بازیاب کرانے کیلئے جمعہ 24 مئی تک مہلت دے کر سماعت ملتوی کر دی ۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے  جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت کی تو سیکرٹری داخلہ ،آئی جی اسلام آباد ، اٹارنی جنرل منصور اعوان ، احمد فرہاد کی اہلیہ کی وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے ۔اٹارنی جنرل نے احمد فرہاد کی بازیابی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا احمد فرہاد کی بازیابی کے لیے جو بھی ہو گا کریں گے ۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ریسکیو کریں گے ، ریکور کریں گے ؟۔ جس پر اٹارنی جنرل بولے بالکل، سب کچھ کریں گے ۔فاضل جسٹس نے کہا آپ یقین دہانی کراتے ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا جی میں یقین دہانی کراتا ہوں ۔ فاضل جسٹس نے کہا آپ نے سپریم کورٹ میں بھی کہا تھا ، آپ نے انشور کرنا ہے کہ اسلام آباد سے کوئی بندہ نہیں اٹھایا جائے گا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ احمد فرہاد کو ریکور کریں گے ۔ فاضل جسٹس نے کہا اگر بندہ ریکور نہیں ہو گا تو یہ ریاست کی ناکامی ہو گی ۔ اٹارنی جنرل نے سیکرٹری دفاع کی جانب سے رپورٹ عدالت کو جمع کرائی۔ فاضل جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ریاست کی جانب سے یہ ذمہ داری لے رہے ہیں کہ احمد فرہاد کو بازیاب کیا جائے گا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا میری پوری کوشش ہوگی تمام ریسورسز کا استعمال کرکے مغوی کو بازیاب کراؤں ، مجھے مغوی کی بازیابی کے لئے وقت دیا جائے ۔ فاضل جسٹس نے کہا آپ جو بیان دے رہے ہیں کیا وہ وفاقی حکومت کی مشاورت سے دے رہے ہیں ؟۔ ایمان مزاری نے کہا ہمیشہ سے ایسے ہوتا ہے کہ یہ بندہ اٹھاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہمارے پاس نہیں ہے ، اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں کہ پچھلے چھ دنوں میں بازیابی سے متعلق کیا پراگریس ہے ، اگر ایجنسیوں کے پاس نہیں ہے تو کم از کم مغوی کو ٹریس تو کیا جا سکتا ہے ۔

فاضل جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا اس معاملے نے آپ کو اور مشکل میں ڈال دیا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا میں یقین دہانی کروا رہا ہوں جو وسائل ہیں وہ استعمال میں لائے جائیں گے ۔ عدالت نے ایس ایس پی آپریشنز کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا آپ نے بیان لیا ؟۔ ایس ایس پی نے کہا بیان نہیں لیا ، افسر کی غیر موجودگی میں ان کے جونیئر سے بات ہوئی ہے ، ان کی جانب سے رپورٹ سیکرٹری دفاع کو بھیج دی گئی ہے ۔ ایس ایس پی نے کہا ہمیں وہاں سے یقین دہانی کرائی گئی مغوی ان کے پاس نہیں ہے ۔ فاضل جسٹس نے کہا یہ آپ کا کام ہے آپ نے ہی یہ کرنا ہے ، یہ پولیس کی ذمہ داری ہے ۔ ایمان مزاری نے کہا یہ صرف ایک کیس نہیں میں روز ایسے کیسز میں پیش ہوتی ہوں ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مغوی کی بازیابی کے لئے آپ کو کتنا وقت چاہیے ؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا چھ دن گزر گئے مگر مجھے تین دن چاہئیں ۔ ایمان مزاری نے کہا یہ کوئی پہلا کیس نہیں سب کو عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے ، جب بھی سیکرٹری دفاع کو نوٹس کیا تو نہیں آئے ، سیکرٹری دفاع عدالت پیشی کو توہین سمجھتے ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا سیکرٹری دفاع کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا اس معاملے کو ختم کرنا ہے ، آئندہ سماعت پر سیکرٹری دفاع کو لے آئیں ۔ایمان مزاری نے کہا فرہاد کس حالت میں ہیں، کیسے ہوں گے یہ ایک سیریس معاملہ ہے ، بلوچستان کے کیسز میں ہم نے دیکھا کہ لاپتہ ہونے کے بعد مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں ۔ فاضل جسٹس نے کہا اس کیس میں ایسا کچھ نہیں ہوگا ، اٹارنی جنرل یقین دہانی کرا رہے ہیں، میں آپ کے الفاظ اور ریاست کے الفاظ کا احترام کرتا ہوں ۔ عدالت نے 24 مئی تک اٹارنی جنرل کو بازیابی کیلئے وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 24 مئی تک ملتوی کر دی ۔ فاضل جسٹس نے ہدایت کی سیکرٹری دفاع کی پیشی آئندہ سماعت پر یقینی بنائی جائے ۔

دریں اثنائاسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا بلوچ طلبا کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ ایجنسیوں کے کام پر کسی کو اعتراض نہیں، اعتراض ماورائے قانون کام پر ہے ۔انکے کام کا طریقہ واضح ہو جائے تو اچھا ہو گا ۔ عدالت نے لاپتہ بلوچ طلباکی بازیابی سے متعلق کیس میں عدالتی سوالنامہ کے جوابات آئندہ سماعت پر جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی ۔ گزشتہ روز جسٹس محسن اختر کیانی نے بلوچ طلباکی بازیابی سے متعلق قائم کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی سماعت کی تو گمشدہ بلوچ طلباکی جانب سے وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ عدالت پیش ہوئے ، اٹارنی جنرل بھی روسٹرم پر آ گئے ۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا اس عدالت نے ایک کمیٹی بنائی تھی جس کے کچھ ٹی او آرز تھے ، پچھلے دس سال میں بلوچ طلباکے خلاف دہشت گردی کی کتنے کیسز درج کئے گئے ۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے لاپتہ افراد کی کمیٹی کی رپورٹ عدالت پیش کر دی ۔ جسٹس محسن اختر نے کہا گزشتہ دس سال میں کتنے لوگ گرفتار ہوئے ، لاپتہ ہوئے یا ہراساں کیا گیا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا انٹیلی جنس ایجنسیز کسی بھی شخص کو ہراساں نہیں کرسکتیں ، کچھ پیشرفت ہوئی ہے ۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا اچھا خفیہ ایجنسی کو اب تھانے میں بلائیں گے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا نہیں نہیں ۔ جسٹس محسن نے کہا کوئی بھی عدالت ، جج ، وکیل ، صحافی ، پارلیمنٹیرین ایجنسیوں کو قانون کے مطابق کام سے روکنے کی بات نہیں کرتا ، صرف خلاف قانون کام کرنے سے روکنے کی بات کرتے ہیں ، ایجنسیز کے کام کرنے کے طریقہ کار واضح ہو جائے تو اچھا ہوگا ، قانون میں ایف آئی اے ، پولیس تفتیش کرسکتی ہیں ، ایجنسیز تفتیش میں معاونت کرسکتی ہیں، ہمیں قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہے ،کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ صحافی ہو یا پارلیمنٹیرین وہ دہشت گردوں کی سپورٹ نہیں کر رہا ، کوئی بھی شخص اداروں کو قانون کے مطابق کام کرنے سے نہیں روکتا ۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا جب تک سیاسی طور پر اس معاملے کو حل نہیں کیا جاتا تب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔

جسٹس محسن اختر نے کہا مطلب یہ مانتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ، ہم نے باہر سے کسی کو نہیں بلانا آ کے معاملہ حل کرے ، غلطیاں ہوتی ہیں غلطیوں سے سیکھ کر آ گے بڑھنا ہوتا ہے ، یہ 21 ویں سماعت ہو رہی ہے ، آپ کی محنت سے کئی سٹوڈنٹس بازیاب ہوئے ہیں۔ الزام ہے بہت سے لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہوتے ہیں ، وہ کھاتے پیتے بھی ہوں گے ، خرچ سرکاری خرانے پر آتا ہے ؟، ایجنسیوں کے فنڈز کا کوئی سالانہ آڈٹ ہوتا ہے ؟، ہم نے پولیس ، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے کو موثر بنانا ہے ، یہی تین ادارے ہیں جنہوں نے تفتیش کرنی ہوتی ہے باقی ایجنسیاں ان کی معاونت کر سکتی ہیں ، ایجنسیوں کے کام پر کسی کو اعتراض نہیں ، اعتراض ماورائے قانون کام کرنے پر ہے ، وزیراعظم شہباز شریف کو عدالت میں طلب کیا انہوں نے بھی یہی کہا ہم سب نے قانونی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے ۔ قانونی دائرے میں جو اختیار ملتا ہے اس پر عمل درآمد کریں ۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا ہم نے لاپتہ افراد کیسز میں بہت کام کیا ، جو رہ گیا وہ بھی کریں گے تھوڑا سا وقت دے دیں، سیاسی حل بھی تلاش کیا جارہا ہے ۔ جسٹس محسن اختر نے کہا جنگ میں بھی سفید جھنڈا لہرا کر سیز فائر کیا جاتا ہے بات چیت کرکے حل نکالا جاتا ہے ۔فاضل جسٹس نے کہا درخواست گزار وکیل نے کہا عدالت سے متعلق بھی بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں، کوئی پریس کانفرنس کرتا ہے کرتا رہے ا س سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، عدالتیں ان تمام چیزوں سے ماورا ہوتی ہیں ۔ ایمان مزاری نے کہا لواحقین کو ڈرایا دھمکایا گیا ، لاپتہ افراد کی کمیٹی بنائی گئی ، کمیٹی میں سے لواحقین سے ملنے کوئی بھی نہیں گیا ،لواحقین کو کوئی معلومات فراہم نہیں کی جاتیں ۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا آپ کے مطابق جو معلومات عدالت کے سامنے پیش کی گئیں وہ درست نہیں ہیں ، اس معاملے میں اٹارنی جنرل کی کاوشوں کو سراہنا ہوگا ، ان کی کاوشوں سے بہت سے لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں ، جب تک مسنگ پرسنز کے کیسز آتے رہیں گے یہ کورٹس کام کرتی رہیں گی ، ایک کیس نہیں ہے کہ اس پر آرڈر کریں اور بات ختم ہو جائے ، تنقید ہوتی رہتی ہے ، ایمان مزاری کو بھی کچھ نہ کچھ کہا گیا ہوگا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا کو اس معاملے میں ساتھ دینا چاہیے تاکہ منفی چیزیں اجاگر نہ ہوں ۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا میڈیا آزاد ہے اور یہ ان لوگوں کی نشاندھی پر ہی کام ہوتے ہیں، ملک کے ایک کونے سے بندہ غائب ہوتا ہے تو میڈیا کی نشاندھی کی وجہ سے بعض اوقات بندہ مل جاتا ہے ، بلوچستان کے لوگ بھی پاکستانی ہیں ، ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے ۔اٹارنی جنرل نے کہا لاپتہ افراد سے متعلق معاملے کو کابینہ کے اگلے دو اجلاسوں میں اٹھایا جائے گا، عدالت ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی بی کی کمیٹی میں تبدیلی کرے ، اس کمیٹی میں ڈی جی لیول سے نیچے کے لوگ ڈالیں تاکہ کوآرڈی نیشن میں آسانی ہو۔ فاضل جسٹس نے اٹارنی جنرل اور ایمان مزاری سے کہا میں آرڈر جاری کروں گا، وہ آپ دیکھ لیں ،اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں آپ جیسے لوگ کہاں پر ہیں جو مسائل کو حل کرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا سر یہ بہت مشکل سوال ہے ۔ فاضل جسٹس نے کہا ہمارے پاس ایک اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس ہے اس میں بھی آپ آئیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا میں اس کیس میں ضرور آؤں گا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں