سیاسی مفاہمت کی غیر سنجیدہ باتوں سے صرف ملک کانقصان

سیاسی مفاہمت کی غیر سنجیدہ باتوں سے صرف ملک کانقصان

(تجزیہ:سلمان غنی) سیاسی جماعتوں کے ذمہ دار ملک میں قومی مفاہمت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سیاستدانوں کو مل بیٹھنے کا مشورہ تو دیتے ہیں مگر اس حوالہ سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی، جس کی بنا پر یہ تاثر عام ہو رہا ہے۔

 کہ سیاسی قوتیں سیاسی مفاہمت کی ضرورت کو بیانات کی حد تک تو استعمال کرتی نظر آتی ہیں مگر عملاً اس حوالہ سے کوئی سنجیدگی اور یکسوئی اختیار کرنے کو تیار نہیں ،یہی وجہ ہے کہ ملک کے اندر انتشار، خلفشار اور ایک محاذ آرائی کی کیفیت طاری ہے اور ملک کی کوئی اچھی تصویر دنیا کے سامنے نہیں جا رہی ۔دوسری جانب معاشی ماہرین مصر ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری کا عمل باعث اطمینان سہی لیکن کیا معاشی استحکام کا خواب بغیر سیاسی استحکام کے ممکن ہوپائے گا،ان کا کہناہے کہ جب تک ملک میں سیاسی ماحول سازگار نہیں ہوگا بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری نتیجہ خیز نہیں ہوگی۔ آخر قومی مفاہمت کیونکر ناگزیر ہے سیاسی قیادتیں اس حوالہ سے کتنی سنجیدہ ہیں اور خصوصاً اپوزیشن کی بڑی جماعت جو ملک میں مفاہمت کی ضرورت تو محسوس کرتی ہے لیکن وہ بڑی سیاسی قوتوں سے مذاکرات سے انکاری کیوں ہے اور یہ کہ کیا سیاسی قوتوں کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات آئینی آپشن ہے۔

ملک میں جاری انتشار ،خلفشار، محاذ آرائی اور الزام تراشی کے اس عمل کا کسی جماعت کو نقصان ہوا یا نہیں اس حوالہ سے دو آرا موجود ہوں گی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا بڑا نقصان ملک میں معیشت اور خصوصاً تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کو ہوا اور ٹکراؤ اور تناؤ کے اس ماحول میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری ممکن نہ ہو سکی اور معاشی حوالہ سے شائع شدہ رپورٹس میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک میں اتنے ڈالرز آئے نہیں جتنے ملک سے باہر چلے گئے اور اس کا نقصان کسی فرد یا ادارے کو نہیں پاکستان کو ہوا ،اب پہلی مرتبہ معاشی حوالہ سے ملک بھر میں سنجیدگی ظاہر ہو رہی ہے ،ملک کو آگے لیکر چلنا ہے تو پھر سیاسی مفاہمت کویقینی بنانا ہوگا ،معاشی حوالہ سے اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہوگا ۔چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ روز لاہور میں سیاسی مفاہمت کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے واضح کہا کہ شدید اختلافات کے باوجود اگر پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن سے ڈائیلاگ کیلئے تیار ہے تو ہمارے ساتھ کیوں نہیں۔

مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما رانا ثنا اﷲ بھی کہتے ہیں کہ ڈائیلاگ قومی ضرورت ہے ہم اس کیلئے تیار ہیں پی ٹی آئی اس پر آمادگی ظاہر کرے ہم ان سے ملنے ان کے پاس جائیں گے لیکن دوسری طرف بانی پی ٹی آئی سیاسی مفاہمت کی ضرورت کو تو محسوس کرتے ہیں البتہ ڈائیلاگ وہ اسٹیبلشمنٹ سے کرنا چاہتے ہیں ایسا کیوں ہے اور وہ کیونکر سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو اہم سمجھتے ہیں،وہ اپنی حکومت کی مدت پوری نہ کرسکے اور پھرریاست اور ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے ان پر اثر انداز ہونے کی سنجیدہ کوشش کی جو کارگر نہ ہو سکی اور اب جب وہ خود کو بند گلی میں بند دیکھتے ہیں تو پھر وہ اس کو پکارتے نظر آتے ہیں ۔

ماضی میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے مشکلات اور صعوبتوں کو محسوس کرتے ہوئے سیاسی قوتوں کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھایا تھا اور پیپلز پارٹی جمعیت علما اسلام سمیت بڑی و چھوٹی جماعتیں ان کے ساتھ جا کھڑی ہوئی تھیں اور انہوں نے سیاسی دباؤ کے نتیجہ میں اپنا سیاسی راستہ بھی بنایا اور ملک میں دوبارہ اقتدار بھی حاصل کر لیا،موجودہ صورتحال میں سیاسی مفاہمت کیلئے پی ٹی آئی کو سیاسی قوتوں کی طرف ہی صلح کا ہاتھ بڑھانا پڑے گا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑی جماعتوں کی قیادتیں بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی ڈیڈ لاک کو توڑیں اور مل بیٹھنے کا امکان پیدا کریں بلاشبہ اس وقت کسی احتجاجی تحریک کے آثار نمایاں نہیں لیکن اپوزیشن جماعتیں خصوصاً پی ٹی آئی اور جے یو آئی انتخابی ساکھ کو ٹارگٹ کرتی نظر آ رہی ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس کے ملک کے اندر زیادہ اثرات نہ ہوں لیکن عالمی محاذ پر ایسی حکومت کو زیادہ پذیرائی نہیں مل پاتی ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں