پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے پر اعتراض بلا جواز:رجسٹرار سپریم کورٹ کا برطانوی ہائی کمشنرکو جواب

پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے پر اعتراض بلا جواز:رجسٹرار سپریم کورٹ کا برطانوی ہائی کمشنرکو جواب

اسلام آباد(دنیانیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کو عام انتخابات میں بلے کے نشان سے محروم کرنے کے حوالے سے برطانوی ہائی کمشنر کے اعتراض کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے وہی کیا جو قانون کہتا ہے ۔

اپریل میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر جین نے جمہوریت کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، پاکستان میں عام انتخابات اور تحریک انصاف کو بلے نشان سے محروم کرنے سمیت مختلف امور پر بات کی تھی، خط رجسٹرارسپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر لکھا اورپاکستان میں برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ کے نام بھجوایا۔ خط میں کہاگیاکہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں آپ کی پر جوش تقریر میں جمہوریت کی اہمیت، انتخابات اور کھلے معاشرے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے محروم کرنے کے فیصلے پر آپ کی تنقید مناسب نہیں، سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017 پارلیمنٹ نے منظور کیا ،مذکورہ سیاسی جماعت جس نے انٹراپارٹی انتخابات کے قانون کے حق میں ووٹ دیا تھا خود پارٹی انتخابات نہیں کرائے ۔

پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری تھا، انتخابات اس لئے بر وقت نہیں ہو سکے تھے کیوں کہ صدر اور الیکشن کمیشن متفق نہیں تھے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار کس کو ہے ، سپریم کورٹ نے یہ معاملہ صرف 12 دنوں میں حل کر دیا اور 8 فروری 2024 کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے ، پاکستان میں الیکشن لڑنے کے خواہشمند بہت سے لوگوں کو تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے انہیں ایماندار اور قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا تھا تاہم سات رکنی بینچ نے پہلے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہے ، انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد آمریت کو روکنے کے لئے اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کی ضرورت ہے ، اس جمہوری اصول کی تعمیل کو یقینی بنانے کیلئے قانون میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی تو وہ انتخابی نشان کیلئے اہل نہیں ہوگی،خط میں لکھا گیا کہ ایک سیاسی جماعت نے لازمی انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے تھے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوامی اہمیت کے مقدمات براہ راست نشر ہونے لگے ، پاکستانی عوام سپریم کورٹ کی کارروائی کو مکمل طور پر دیکھ سکتی ہے تا کہ عوام کو بھی مقدمات کی شفافیت اور فیصلوں بارے علم ہو، انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی نشانات کے بارے میں فیصلہ بھی براہ راست نشر کیا گیا تھا۔رجسٹرارسپریم کورٹ نے خط میں لکھا کہ ماضی کی غلطیوں کو آگے لے جانے سے آج اور مستقبل کی نسلیں برباد ہو جاتی ہیں اور تشدد کے عمل کو ہوا ملتی ہے ۔ خط میں 1953 میں تیل کے حصول کیلئے ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے اور 1917 بالفور اعلامیہ کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے قیام اور فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کر کے تشدد اور قتل عام کا نشانہ بنانے کا تذکرہ بھی کرتے ہوئے سوال کیا گیا کہ کیا یہ سب درست تھا، ہمیں سچائی کے ساتھ ماضی میں کئے گئے غلط فیصلوں کو تسلیم کرنا چا ہئے اور ضرورت اس امر کی ہے برطانیہ بھی غلطیوں کا ازالہ کرے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ماضی میں کی گئی غلطیوں کو تسلیم کیا، ان پر تفصیلی گفتگو کی اور اقدامات اٹھاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان غلطیوں کو دہرایا نہ جائے ۔خط میں کہا گیا کہ چونکہ کنگ چارلس تھری کی حکومت نے کھلے معاشروں اور جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا ہے اور آپ کے ملک کے عوام کیلئے کھلے پن اور جمہوریت کیلئے اپنی تڑپ اور نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں