الیکشن کمیشن نے2ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل اضافی ٹربیونل بنادیئے،اسلام آباد کے3حلقوں کا معاملہ بھی منتقل

الیکشن کمیشن نے2ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل اضافی ٹربیونل بنادیئے،اسلام آباد کے3حلقوں کا معاملہ بھی منتقل

اسلام آباد (وقارعلی سید)الیکشن کمیشن نے 2ریٹائرڈججوں پرمشتمل اضافی الیکشن ٹربیونلز تشکیل دے دئیے ،اسلام آباد کے 3 حلقوں میں مبینہ دھاندلی کا معاملہ بھی منتقل کردیاگیا،الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق ٹربیونلز نئے صدارتی آرڈیننس کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔

 جس میں جسٹس(ر)ظفر اقبال بہاولپور کے اضافی الیکشن ٹربیونل جج ہوں گے جبکہ جسٹس (ر)شکور پراچہ راولپنڈی کے اضافی الیکشن ٹربیونل جج ہوں گے ، اسلام آباد کے تینوں حلقوں کے ٹربیونل جج بھی جسٹس(ر)شکور پراچہ ہی ہوں گے ،ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق دو نئے ٹربیونلز کے قیام کا نوٹیفکیشن 7جون کو جاری کیاگیا،وفاقی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے تحت الیکشن کمیشن کو ریٹائرڈ جج کی بطور ٹربیونل تعیناتی کا اختیار دیا تھا،الیکشن کمیشن ممبران نے ہی متعدد ریٹائرڈ ججز کے نام تجویز کئے تھے جس میں ان دونوں ریٹائرڈ ججوں نے ٹربیونل کی سربراہی پر آمادگی ظاہر کی تھی،ذرائع الیکشن کمیشن کے مطابق ٹربیونل ججز کی تقرری صرف اور صرف الیکشن کمیشن کا اختیار ہے جبکہ صدارتی آرڈیننس کے تحت ریٹائرڈ ججز کی تقرری کیلئے مشاورت پرپابند نہیں کیاگیا لہذا الیکشن کمیشن ممبران نے ہی متعدد ججز کے نام تجویز کئے ۔

الیکشن کمیشن نے وفاقی دارالحکومت کی نشستوں پر کامیاب تینوں لیگی امیدواروں کی اپیلز منظور کرنے کافیصلہ سنادیا،الیکشن کمیشن نے تینوں ایم این ایزکی انتخابی نتائج سے متعلق درخواستیں اسلام آباد الیکشن ٹربیونل سے دوسرے ٹربیونل منتقل کرنے کاحکم دیدیا،الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کی درخواستیں مسترد کردیں،چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے 7 جون کو تینوں درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا،بعدازاں الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے 3 ایم این ایز کے کیسز دوسرے ٹربیونل منتقل کرنے کی درخواستیں منظورکرنے کاتحریری فیصلہ جاری کردیا،الیکشن کمیشن نے لیگی ارکان قومی اسمبلی انجم عقیل،طارق فضل چودھری اورراجہ خرم نوازکی درخواستوں پر الگ الگ فیصلہ جاری کیا،تحریری فیصلے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئرٹرائل کے لئے درخواستیں منظور کی جاتی ہیں، انجم عقیل کی درخواست پرتحریری فیصلہ میں کہا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق درخواستیں 45 روز کی مدت گزر جانے کے بعد 2 اپریل کو جمع کروائی گئیں،الیکشن ایکٹ کے مطابق درخواست میں کوئی قانونی سقم ہو تو اسے فوری مسترد کر دیا جاتا ہے ،الیکشن ٹربیونل کے پاس کوئی اختیار نہیں وہ کسی قانونی سقم کو درست کرے۔

الیکشن ٹربیونل نے پہلی ہی سماعت پر الیکشن کمیشن کو فارم 45 اور 47 دینے کا کہا،الیکشن کمیشن اس وقت تک اس معاملے میں فریق نہیں تھا،تحریری فیصلہ کے مطابق جوابدہ کا موقف درست نہیں،الیکشن کمیشن درخواست کو ایک ٹربیونل سے دوسرے کو منتقل کر سکتا ہے اورالیکشن کمیشن کے پاس نئے الیکشن ٹربیونل کے قیام کا اختیار ہے ،فیصلہ میں کہا گیا درخواست گزار نے اسسٹنٹ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو 3 اپریل کو درخواست جمع کروائی،اسسٹنٹ رجسٹرار نے درخواست اعتراضات کے ساتھ واپس کر دی،درخواست دوبارہ 15 اپریل کو جمع کروائی گئی،لازم ہے کہ الیکشن ٹربیونل میں درخواست 45 دن کے اندر جمع کروائی جائے ،اگر ایک فریق ٹرائل کورٹ پر اعتماد کھو دے تو درخواست گزار کی جانب سے ریلیف مانگنا قابل غور ہے ،الیکشن کمیشن نے ایم این اے طارق فضل چودھری کی درخواست پر تحریری فیصلہ میں کہا کہ درخواست گزار نے ٹربیونل میں 26 مارچ کو درخواست جمع کروائی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے درخواست اعتراض کے ساتھ واپس کر دی،درخواست گزار نے 16 دن تاخیر سے دوبارہ الیکشن پٹیشن جمع کروائی،درخواست گزار کی جانب سے جمع کروائی گئی درخواست زائد المیعاد ہے ، ٹربیونل نے سماعت میں جوابدہ کو تحریری جواب جمع کروانے کا کہا، ریٹرننگ افسر کو ٹربیونل نے کہا اگر وہ پیش نہ ہوا تو وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے ،ٹربیونل نے ریٹرننگ افسر پر 15 ہزار روپے جرمانہ کیا، ایم این اے خرم نواز کی پٹیشن پر الیکشن کمیشن نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا درخواست کی سماعت کے دوران اگر رولز پر عمل درآمد نہ ہو تو فریقین میں تعصب کا احساس پیدا ہو سکتا ہے ،درخواست گزار نے الزام لگایا ٹربیونل رولز پر عمل نہیں کر رہا،درخواست گزار نے کہا اس سے جانبداری کا تاثر پیدا ہو رہا ہے ،درخواست گزار نے درخواست ٹھیک کر کے 16 اپریل کو جمع کروائی،درخواست جمع کروانے میں معینہ مدت میں 16 دن کی تاخیر ہوئی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں