سیاسی قوتوں سے مذاکرات ،بانی پی ٹی آئی کا سگنل بڑی پیشرفت

سیاسی قوتوں سے مذاکرات ،بانی پی ٹی آئی کا سگنل بڑی پیشرفت

(تجزیہ: سلمان غنی) بانی پی ٹی آئی کی جانب سے اپنی جماعت کے ذمہ داران کو سیاسی قوتوں سے مذاکرات کیلئے سگنل دینے کے عمل کو ایک بڑی پیش رفت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے جہاں سیاسی قوتوں سے مذاکراتی عمل کے اعلان کا اظہار کیا وہاں انہوں نے بتایا کہ اس حوالہ سے پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کی سربراہی میں ڈائیلاگ ہوں گے ۔اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی یہ پیشکش کتنی سنجیدہ ہے اس پر کوئی پیش رفت ہو پائے گی اور کیا حکومت اور حکومت میں شامل جماعتیں پی ٹی آئی یا اپوزیشن سے سیاسی مفاہمت کیلئے تیار ہوں گی اور مذاکراتی عمل کے حوالہ سے مشترکہ ایجنڈا طے پا سکے گا ۔جہاں تک بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکراتی عمل کے حوالہ سے سگنل کا سوال ہے تو یہ اب اہم پیش رفت ہے کیونکہ اس سے قبل وہ صرف پاکستان کی مقتدرہ سے ہی مذاکرات کی بات کرتے نظر آتے تھے ،اب ان کی اپنی جماعت کے ذمہ داروں کو دی جانے والی ہدایات ان کا بدلا ہوا موقف ہے اور اس کی بڑی وجہ ان پر آنے والا یہ دباؤ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے مذاکرات کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ دونوں انہیں باور کراتے نظر آ رہے ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ یا مذاکرات کا عمل سیاسی قوتوں اور حکومت کے درمیان ہونا چاہئے ۔

دیکھنا یہ ہوگا کیا حکومت اور حکمران جماعتیں پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر پائیں گی اگر حالات واقعات کی بنا پر اس عمل کا جائزہ لیا جائے تو اس کیفیت میں حکمران اور حکمران جماعتیں بغیر اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مذکورہ مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گی۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا ان مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا اور ایجنڈا باہمی مشاورتی عمل سے طے پا سکتا ہے تو یہ بات ا بھی فی الحال قبل از وقت ہو گی ۔حکومت 9مئی کے واقعات اور ذمہ داروں کے تعین بارے مقتدرہ کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور کوئی ایسا عمل نہیں کرے گی یا ایسے روابط یا ڈائیلاگ کیلئے تیار نہیں ہوگی جس سے الٹا اس کے اپنے مقتدرہ سے اختلافات سامنے آئیں لہٰذا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل میں بڑی رکاوٹ ایجنڈا ہی بنے گا ۔ حکومت ایسے نکات پر مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوگی کہ خود اس کی اپنی ساکھ کے آگے سوالیہ نشان کھڑا ہو اور دوسرا وہ کسی ایسے نکتہ پر بھی لچک نہیں دکھائے گی جس سے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات متاثر ہوں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سیاسی قوتوں کے درمیان تناؤ اور ٹکراؤ کی کیفیت میں مذاکرات کا ڈول اس وقت ڈالا گیا جب کسی تیسرے فریق کی جانب سے مثبت کردار ادا کیا گیا ۔پی ٹی آئی کے ساتھ بڑا مسئلہ بھی یہی ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت ا ور سیاسی قوتوں کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے ، مقتدرہ اور ریاست کے کردار کو نشانہ بنایا اسے اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ۔بانی پی ٹی آئی کی پیشکش کی اہمیت اپنی جگہ لیکن حکومت کی جانب سے کوئی مثبت جواب مشکل نظر آتا ہے اور لگتا یہ ہے کہ حکومت اس پیشکش کا واضح جواب دینے کی بجائے مذاکرات کی اس پیشکش کو بعض نکات سے مشروط کر کے اس سے پیچھا چھڑوائے گی جو کسی طرح بھی بانی پی ٹی آئی اور اپوزیشن کیلئے قابل قبول نہیں ہوں گی۔یہ ضرور کہا جا سکتا ہے بانی پی ٹی آئی کی پیشکش پر گیند حکومتی کورٹ میں آ چکی ہے البتہ پاکستان میں بامقصد مذاکراتی عمل اس وقت ہی شروع ہوگا جب فیصلہ سازوں کی تھپکی اور سگنل حاصل ہوگا جس کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں