ریاستی ادارے ججوں کو دھمکانے میں ملوث:چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ:پولیس افسروں کو توہین عدالت کا نوٹس
لاہور(محمداشفاق سے )چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان نے لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج آخری فیصلے میں قرار دیاکہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سپیشل رپورٹ کے مطابق ریاستی ادارے خود ججز کو دھمکانے میں ملوث ہیں۔
راولپنڈی کے اے ٹی سی جج کے خلاف بھی ریاستی اداروں نے یہی حربے استعمال کیے ،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے انسداد دہشتگردی عدالت سرگودھا کے جج کو آئی ایس ائی کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے خلاف از خود نوٹس کیس کی گزشتہ سماعت کا 13 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ، عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدلیہ کے ججز کو تحفظ دیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سپیشل رپورٹ کے مطابق ریاستی ادارے خود ججز کو دھمکانے میں ملوث ہیں جج اے ٹی سی سرگودھا نے کام میں مداخلت کی متعدد رپورٹس بھجوائیں راولپنڈی کے اے ٹی سی جج کے خلاف بھی ریاستی اداروں نے یہی حربے استعمال کیے ، ریاستی اداروں نے شہریوں کو عدالتوں تک رسائی اور انصاف کے آئینی حق سے بھی محروم کیا ، جج اے ٹی سی سرگودھا نے آئی ایس آئی سرگودھا ریجن پر سنگین الزامات عائد کیے ، سیکٹر کمانڈر سرگودھا اور وفاقی سیکرٹری داخلہ نے کوئی رپورٹ بھی جمع نہیں کرائی لہذا ڈی پی او ، ڈی ایس پی سرگودھا ، آر او سی ٹی ڈی کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا جاتا ہے کیس کی آئندہ سماعت 26جون کو جسٹس شاہد کریم کریں گے یہ سارا معاملہ سپریم کے علم میں لانا بہت ضروری ہے جہاں پہلے ہی اسی نوعیت کی درخواست پر کارروائی ہورہی ہے ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے انسداد دہشتگردی عدالت راولپنڈی کی کورٹ نمبر ایک سے نو مئی کے کیسز ٹرانسفر کروانے کی درخواستوں کا بھی 10صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، فیصلے میں کہا گیا کہ کل 12 ٹرانسفر ایپلی کیشنز کے ذریعے عدالت کا وقت برباد کیا گیا لہذا درخواست دو لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کی جاتی ہے ، اپنے ایجنٹس کے ذریعے ، آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے ججز کے خلاف ریفرنس دائر کروانا عام ہو گیا ہے ۔ درخواست میں کہا گیا کہ مذکورہ عدالت کے جج پراسیکیوشن کے حوالے سے تعصب کا شکار ہیں، پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ جج صاحب کے اس تعصب کی بنا پر ان کے خلاف 16 اپریل 2024 کو ایک ریفرنس دائر کیا گیا ،پراسیکیوٹر جنرل پنجاب یہ بتانے میں ناکام رہے کہ کس قانون کے تحت مذکورہ جج کو ریفرنس آنے پر کیس کی کارروائی کو روک دینا چاہیے ۔ ریفرنس سے یہ معلوم ہوا کہ انسداد دہشتگری عدالت کے جج اڈیالہ جیل میں 9 مئی کے ایک کیس کا ٹرائل کر رہے تھے ، مذکورہ جج نے ریفرنس کے جواب میں کہا کہ متعلقہ اتھارٹیز کی غیر قانونی ڈیمانڈز پوری نہ کرنے پر ان کے خلاف یہ ریفرنس لایا گیا۔
جیل انتظامیہ نے عدالتی کارروائی میں مداخلت اور دباؤ میں لانے کی بہت کوششیں کیں۔ جج نے لکھا کہ نو مئی کے کیس کے 25 ملزموں کو سکیورٹی کے پیش نظر کبھی بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ ان 25 ملزموں کی حاضری جیل میں ہی لگتی رہی۔ جج صاحب نے لکھا کہ مجھے اڈیالہ جیل میں عدالتی کارروائی سے روکنے کیلئے اکثر سکیورٹی تھریٹ کے حوالے دئیے گئے ، جج صاحب نے مزید لکھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے کہنے پر جیل انتظامیہ نے عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی، ضمانت پر رہا ملزموں کو بھی عدالت میں پیش نہیں ہونے دیا جاتا تھا لہذا وہ سڑک پر ملزموں اور ان کے وکلا کی حاضری لگایا کرتے تھے ۔ جج کے مطابق جیل افسروں کے پاس مبینہ طور پر ریکارڈنگ کے آلے ہوتے تھے اور وہ تمام تر عدالتی کارروائی کے دوران عدالت میں موجود رہتے تھے ، انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ایڈمن جج نے الزامات اور جج کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد آرڈر کیا کہ مذکورہ ریفرنس فائل ہونا چاہیے ، مذکورہ جج کے خلاف کوئی بھی توجہ طلب ثبوت پیش نہیں کیا گیا، جج کے خلاف متعصب ہونے کی مبہم وجوہات بیان کی گئی،مذکورہ جج کا بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو فریج فراہم کرنے کا آرڈر ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی اصل وجہ تھا۔ جج نے اپنے جواب میں دیگر ججز کے آرڈرز کے حوالے دئیے جس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو مختلف سہولیات دینے کے احکامات دئیے گئے تھے مگر ان ججز کے خلاف کوئی بھی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ یہ بات واضح ہے کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بے بنیاد ریفرنس اور ٹرانسفر ایپلی کیشنز دائر کی گئیں۔ اپنی مرضی کے فیصلے کیلئے مذکورہ جج کو دباؤ میں لانے کیلئے جج کے خلاف 12 ٹرانسفر ایپلی کیشنز دائر کی گئی۔ اپنے ایجنٹس کے ذریعے ، آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے ججز کے خلاف ریفرنس دائر کروانا عام ہو گیا ہے ۔ ایسے ججز کے خلاف بد نیتی پر مبنی میڈیا کمپین کی جاتی ہے ۔
اپنے پسندیدہ فیصلوں کیلئے ایسے ججز کے خاندان اور سٹاف کے لوگوں کو بھی مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے ۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ مذکورہ جج ملک اعجاز آصف جیسے لوگ پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں موجود ہیں۔ ایسے جج بغیر کسی دباؤ، بلیک میلنگ، ڈر اور پسندیدگی کی بجائے قانون کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں۔ ایسے جج پاکستان کے عوام کے لیے امید کی کرن اور عدلیہ کا فخر ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ریاست ججوں کے خلاف ایسی بے بنیاد ٹرانسفر ایپلی کیشنز دائر کر رہی ہے ، ریاست کا کام ہے کہ عدالتوں کی عزت کرے اور انہیں مناسب سکیورٹی مہیا کرے ،مگر بدقسمتی سے ریاستی ادارے ججوں کی توہین کرنے اور ان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے میں ملوث ہیں، نہایت بدقسمتی کی بات ہے کہ ٹرانسفر ایپلی کیشنز پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے دفتر کی جانب سے دائر کی گئیں۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے پرزور انداز میں ٹرانسفر ایپلی کیشنز کے حق میں دلائل دئیے جبکہ ان کا کام صوبے میں آئین اور قانون کا نفاذ کرنا ہے ۔ کل 12 ٹرانسفر ایپلی کیشنز کے ذریعے عدالت کا وقت برباد کیا گیا لہذا درخواست دو لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ خارج کی جاتی ہے ۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ جج کو بلیک میل کرنے میں شامل ہونے کی بجائے ایسی بے بنیاد ٹرانسفر ایپلی کیشنز دائر کرنے سے انکار کریں۔ اے ٹی سی راولپنڈی اور اے ٹی سی سرگودھا کے جج کے معاملات رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھیجے جائیں۔ رجسٹرار سپریم کورٹ اگر مناسب سمجھیں تو ان کیسز کو فاضل بینچ کے سامنے سماعت کیلئے لگا سکتے ہیں۔