حکومت، اپوزیشن میں ہر طرح کے ایشوز پر تقسیم کے بادل نمایاں

حکومت، اپوزیشن میں ہر طرح کے ایشوز پر تقسیم کے بادل نمایاں

(تجزیہ:سلمان غنی) قومی اسمبلی میں امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد کے خلاف قرارداد میں امریکی قرارداد کو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کروڑوں افراد نے انتخابی عمل میں حصہ لیا ہے اور کسی ملک کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے ۔

صورتحال سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ سیاسی محاذ پر حکومت اور اپوزیشن میں تقسیم صرف قومی سیاست تک محدود نہیں بلکہ اندرونی و بیرونی محاذ پر ہر طرح کے ایشوز پر اس تقسیم کے بادل نمایاں ہیں ۔قرارداد کی ا پنی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے امریکی انتظامیہ پر لازم ہے کہ کسی قرارداد کی روشنی میں وہ اقدامات کرے اور جواباً پاکستان کی قومی اسمبلی میں پاس کی جانے والی جوابی قرارداد اتنی موثر ہے کہ کہا جا سکے کہ اس کے نتیجہ میں امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد غیر موثر ہو جائے گی ۔ ویسے تو پاکستان کے مقابلہ میں خود امریکی انتخابی سسٹم پر بھی بہت سے سوالات اٹھتے رہے ہیں،مطلب یہ کہ امریکا پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے حالانکہ خود امریکا نے پاکستان میں انتخابی عمل کے حوالہ سے وزیراعظم شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے پر مبارکباد کا مکتوب بھجوایا تھا اور مبارکباد دینے کے ساتھ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مضبوطی کاعزم بھی ظاہر کیا تھا لیکن یکدم ایک ایسی قرارداد جس میں پاکستان کے انتخابی نظام کی ساکھ اور انسانی حقوق کے حوالہ سے اٹھائے جانے والے سوالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقصد پاکستان کو دباؤ میں لانا ہے ۔

اگر امریکا پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کی بات کرے گا تو اس کے اپنے ہاتھ غزہ میں اسرائیل کے فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور اب تک امریکا اسرائیل کی پشت پر کھڑا نظر آ رہا ہے اب قومی اسمبلی کے اندر اور باہر اس قرارداد کی مخالفت اور کانگرس کی اس قرارداد کی حمایت کو اپوزیشن کا اعتراف جرم بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور اپوزیشن نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ان کے سیاسی مفادات کے حوالہ سے دنیا کے کسی بھی ملک سے آواز اٹھے خواہ یہ پاکستان کے خلاف کیوں نہ ہو یہ اس کی حمایت کریں گے اور وہ اب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ امریکا نے درست کہا ہے ۔ امریکا کے حوالہ سے یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ امریکا کو صرف اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں جس کیلئے وہ دوسرے ملکوں میں مداخلت تک سے گریز نہیں کرتا جبکہ امریکی سیاسی جماعتیں ری پبلیکنز اور ڈیمو کریٹس اپنے سیاسی اختلافات کو ملک کے مفادات پر جاری نہیں ہونے دیتیں یہ صورتحال خود ہمارے اہل سیاست کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے 

۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں