آٹا روٹی عوام کی پہنچ میں رہی توحالات کنٹرول میں رہیں گے

آٹا روٹی عوام کی پہنچ میں رہی توحالات کنٹرول میں رہیں گے

تجزیہ:سلمان غنی بلاشبہ حکومت کو بجٹ مشکل صورتحال میں بنانا پڑا اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کیلئے اسے آئی ایم ایف کی شرائط بھی پورا کرنا تھیں اور دوسری جانب سیاسی محاذ پر عوام کو مطمئن رکھنے کیلئے اعلانات کا سہارا بھی لینا تھا۔

اور اب جبکہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں عام آدمی کی ریلیف کے دعوؤں کا تعلق ہے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے کسی ایک کام یا قدم کی نشاندہی کر دے جس سے کہا جا سکے کہ عوام کو ریلیف مل پائے گا خود پیپلز پارٹی جو بجٹ سے قبل حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے عوامی ریلیف کے دعوے کرتی نظر آ رہی تھی بلاول شہباز شریف کی ملاقاتوں کے بعد اس کے بیانات میں بھی دم خم نہ رہا البتہ ایسی خبریں ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ترقیاتی عمل اور سندھ میں اپنے پراجیکٹس کے حوالے سے مطالبات تھے ان پر یقین دہانیاں ہو گئیں اور سب کچھ ٹھیک ہو گیا جہاں تک بجٹ میں ٹیکسوں کے بوجھ کا سوال ہے تو 3500ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے جس سے تقریباً 40فیصد مہنگائی میں اضافہ ہوگا ، صورتحال یہ رہی کہ ملک پر ایسا وزیر خزانہ مسلط کیا گیا جو ملک و قوم کے سامنے قطعی طور پر جوابدہ نہیں ،وزیراعظم شہباز شریف جو متعدد بار حکومتی اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کا اعلان کرتے نظر آرہے تھے اس ضمن میں خود انکی بنائی جانے والی کفایت شعاری کیلئے کمیٹی تک کی سفارشات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا اور اب اراکین اسمبلی کی مراعات میں اضافہ کی خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں۔

تنخواہوں اور الاؤنسز کا معاملہ اس مرحلہ پر فنانس کمیٹی پر چھوڑ دیا گیا تاکہ مسائل زدہ عوام جب مہنگائی کی آگ میں جل رہے ہیں اس کیفیت میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں براہ راست اضافہ جلتی پر تیل کا کام نہ کر جائے ،پیپلز پارٹی نے جس بجٹ کے حق میں ووٹ دیا ہے وہ اس بجٹ کو سیاسی اور عوامی سطح پر سراہنے کو تیار نہیں کیونکہ حکومتی اتحادی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اس بجٹ کے اثرات آنے والے حالات میں بڑے خطرات کے حامل ہو سکتے ہیں یہ سا را بوجھ صرف اور صرف مسلم لیگ ن کو اٹھانا پڑے گا ، حکومت سمجھتی ہے کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری آنے سے حالات بہتر ہوں گے روزگار کے مواقع بھی بنیں گے اور ملک میں استحکام آئے گا لیکن عملاً دیکھنے میں آ رہا ہے کہ حکومتی کوششوں کے جواب میں عدم استحکام اور انتشار پھیلانے والی قوتیں زیادہ متحرک نظر آ رہی ہیں جسکی بڑی مثال امریکی کانگریس میں پاس ہونے والی قرارداد ہے ، جس کے ساتھ پی ٹی آئی بھی کھڑی ہے ۔پنجاب میں اب پھر سے آٹے اور گندم کی قیمتوں میں ا ضافہ کا رحجان سامنے آ رہا ہے اور حکومت کا بڑا کارنامہ اب یہی ہوگا کہ وہ گندم اور آٹے اور روٹی کی قیمتوں پر کنٹرول رکھے اور اگر یہ عوام کی پہنچ میں رکھنے میں کامیاب رہی تو حالات بھی اسکے کنٹرول میں رہیں گے ورنہ حکومتی پالیسیوں کے تابع جی ایس ٹی میں 18فیصد اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ کا عمل بہت کچھ ہلا دے گا کیا صوبائی حکومتیں حالات کو کنٹرول کر پائیں گی یہ دیکھنا ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں