جلسہ منسوخی کے فیصلے نے پی ٹی آئی میں اختلافات بڑھا دئیے

جلسہ منسوخی کے فیصلے نے پی ٹی آئی میں اختلافات بڑھا دئیے

(تجزیہ: سلمان غنی) سیاسی اور عدالتی محاذ پر پی ٹی آئی کو درپیش مشکلات کے نتیجہ میں ان کے اندر اختلافات بڑھتے نظر آ رہے ہیں اور اب ا س پریشان کن صورتحال کے سدباب کیلئے پارٹی لیڈر شپ نے سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کی قیادت میں کمیٹی قائم کی ہے ۔

تحریک انصاف میں اختلافات کی بڑی وجہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر موثر عمل درآمد نہ ہونا بھی شامل ہے البتہ اسلام آباد میں 22اگست کا جلسہ نہ ہونے کے عمل اور اس ضمن میں بعض پارٹی رہنمائوں کے کردار سے بھی پارٹی میں اندرونی انتشار بڑھا ہے اور بعض قائدین کی پہلے جلسہ کے انعقاد بارے حکومت کے خلاف چڑھائی اور پھر راتوں رات پسپائی کے عمل نے بھی پارٹی پر منفی اثرات چھوڑے ہیں جس کا بھانڈا خود بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے یہ کہتے ہوئے پھوڑ دیا کہ پارٹی کے بعض لیڈر میرے بھائی کی رہائی کیلئے سنجیدہ نہیں اور اس حوالہ سے وہ سیاسی دبائوبڑھانے سے بھی گریزاں ہیں لہٰذا اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی میں اندرونی انتشار خلفشار بڑھ رہا ہے ۔ اسلام آباد میں 22اگست کے جلسہ کے موخر ہونے کے عمل نے جماعت کے اندر اختلافات کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے اور اس عمل میں کون کس کیلئے اور کن مقاصد کیلئے سرگرم ہے اور مزاحمتی بیانیہ اختیار کرنے سے کون قاصر اور کون اس کیلئے تیار سب کچھ کھل کر سامنے آ گیا ہے اور 22اگست کا جلسہ جس نے پی ٹی آئی کی سیاسی طاقت کا مظہر بننا تھا الٹا وہ پی ٹی آئی کی کمزوری بن گیا ۔

اگر مشکل صورتحال میں خود قیادت اور جماعت کیلئے آنے والی پریشانیوں اور مسائل کا جائزہ لیا جائے تو اس کی بڑی وجہ جماعتی نظم و نسق اور فیصلہ سازی میں وکلا کا آنا تھا وکلا جو جماعت میں نئے آئے وہ کچھ ہی دیر میں جماعت پر چھا گئے اور انہوں نے قیادت کی خوشنوی بھی حاصل کرلی اس کی وجہ ان کی جیل کے اندر تک دسترس اور سیاسی محاذ پر مشکلات کا شکار نہ ہونا تھا اور پارٹی کے بعض ذمہ داران تو یہاں تک کہتے نظر آتے ہیں کہ آج اگر پارٹی پر مشکلات ہیں اور لیڈر شپ جیل سے باہر نہیں آ پا رہی تو اس کی بڑی وجہ وہ وکلا ہیں جنہوں نے عدلیہ سے اپنے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے پہلے اسمبلیاں تڑوائیں پھر پارٹی کو مقتدرہ کے سامنے لاکھڑا کیا اور پھر لیڈر شپ کو جیل بھجوا دیا لہٰذا اب جب اختلافات کو عروج پر دیکھ کر سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کو اختلافات کے خاتمہ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

تو ان کا کردار اس حوالہ سے اہم ہو سکتا ہے کہ ایک تو وہ کسی گروپ کے ساتھ فریق نہیں دوسرا ان کا پنجاب اور پختونخواسے تعلق نہیں اور تیسرا یہ کہ وہ سب کے ساتھ رابطے میں بھی ہیں اور ان کا اپنا احترام بھی موجود ہے اور ان کی سیاسی سوجھ بوجھ معاملات کو سلجھا سکتی ہے لیکن کیا تمام گروپس بھی ان سے تعاون کر پائیں گے وہ دیکھنا پڑے گا ،جہاں تک بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان اختلافات کا سوال ہے تو یہ روایتی طور پر نند بھاوج کی لڑائی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی بہنوں نے بشریٰ بی بی کو دل سے تسلیم نہیں کیا لیکن دونوں اپنا اپنا اثر و رسوخ بنانے اور دکھانے کیلئے سرگرم ہیں ۔پارٹی معاملات کو سنبھالا دینے اور اختلافات کے خاتمہ کیلئے اگر ڈاکٹر عارف علوی پر نظر پڑی ہے تو پارٹی معاملات چلانے میں ان کا کردار اہم کیوں نہیں ہو سکتا اگر واقعتاً پی ٹی آئی اپنا سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے اپنے لئے قومی سیاست میں راستے کھولنا چاہتی ہے تو ڈاکٹر عارف علوی ہی ان کیلئے بہتر چوائس ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کا آج بھی مقتدر حلقوں میں احترام موجود ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں