لاہور ہائیکورٹ نے چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر کو ہٹانے کا حکم دیدیا
لاہور(کورٹ رپورٹر)لاہور ہائیکورٹ نے چیئر مین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر کی تقرری غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے انہیں ہٹانے کا حکم دیدیا۔
جسٹس عاصم حفیظ نے تحریری فیصلے میں قرار دیا کہ ایک دلیل یہ دی گئی کہ اس سے پہلے بھی دو حاضر سروس افسر نادرا میں خدمات انجام دے چکے ہیں، ماضی میں کئے گئے غلط کاموں کا مطلب یہ نہیں کہ دوبارہ وہ کام کیا جائے ، غیر قانونی طور پر کئے گئے کام کوکوئی قانونی کور نہیں دیا جاسکتا،ایک ہاتھی کو چوہے کے گھر میں نہیں چھپایا جاسکتا، موجودہ چیئرمین نادرا کی تعیناتی کو مزید تحفظ نہیں دیا جاسکتا، لہذا عدالت چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر کی تعیناتی اور کام جاری رکھنے کو غیر قانونی قرار دیتی ہے ۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے اشبا کامران کی درخواست پر 30 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔فیصلے میں لکھا گیاہے کہ اختیارات سے تجاوز کر کے قانون کی منشا کے خلاف کی گئی تقرری کو قومی مفاد کہنا درست نہیں ، نگران حکومت اور وفاقی حکومت نے نادرا رولز 2020 کے رول کے 7 اے کے تحت تعیناتی کی ،چیئرمین نادرا کے تقرر کیلئے کوئی اشتہار یا اہلیت کا معیار نہیں رکھا گیا، نگران حکومت یا مستقل حکومت نے تعیناتی کیلئے کوئی اوپن پراسس اختیار نہیں کیا،نگران حکومت نے تقرری کیلئے اندرون خانہ من پسند افسروں سے جائزہ لیا ۔
وفاقی حکومت کے مطابق نادرا رولز 2020 کا رول 7 اے اختیار دیتا ہے کہ ایسی تعیناتی کیلئے مجاز پراسس اور اہلیت دیکھے بغیر تعیناتی کرے ، عدالت نے یہ دیکھنا تھا کہ کیا وفاقی حکومت کو اختیار تھا کہ وہ خفیہ انداز سے تعیناتی کردے ، متعلقہ شق کو بغور پڑھیں تو صاف ظاہر ہے کہ قومی مفاد کی آڑ میں ڈائریکٹ تعیناتی نہیں کی جاسکتی ۔وفاقی حکومت نے قانون ساز کی منشا جانے بغیر رول 7اے کے ذریعے اپنے اختیارات بڑھانے کی کوشش کی ، موجودہ حالات میں وفاقی حکومت کی جانب سے کی گئی تعیناتی کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا ،پوری سماعت کے دوران یہ نہیں کہا گیا کہ ڈائریکٹ تعیناتی کیلئے قانون ساز نے توثیق کی ہے ۔
جسٹس عاصم حفیظ نے فیصلے میں لکھا کہ سرکاری وکیل کو قومی مفاد کے دعوے کو بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، وفاقی حکومت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ تقرری قومی مفاد میں کی گئی۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ نادرا جیسے ادارے میں سکیورٹی کمپرومائز ہوئی، بہت سی بے ضابطگیاں سامنے آئیں، وکیل نے کچھ اخباری تراشے پیش کئے جس کے مطابق 2.7ملین شہریوں کا ڈیٹا کمپرومائز ہوا ۔سرکاری وکیل نے اخبار کے علاوہ کوئی متعلقہ دستاویزات نہیں لگائیں، کیا کوئی بے ضابطگی اس بات کی اجازت دیتی ہے آپ غیر قانونی طریقے سے تقرری کرلیں، ڈیٹا لیکیج میرٹ پر تقرریوں کو منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں ، بند دروازوں کی اپروچ معاشرتی تقسیم اور پیشہ ورانہ موقعوں کو کم کرتی ہے ،لہذا قومی مفاد کی استدعا کی کوئی وضاحت نہیں ، یہ عمل طاقت کی علیحدگی کے اصولوں کے بھی منافی ہے ۔