سپیکر کے اقدام سے جمہوریت اور سیاست مضبوط ہوسکتی

سپیکر کے اقدام سے جمہوریت اور سیاست مضبوط ہوسکتی

(تجزیہ:سلمان غنی) سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے پارلیمنٹ میں رونما ہونے والے واقعہ پر سٹینڈ لینے اور پروڈکشن آرڈر کے ذریعے اپنے تمام اراکین کو رہا کرنے کے اعلان اور اقدام کو حقیقت پسندانہ جرأت مندانہ اور خود جمہوری سسٹم کے حوالے سے اہم پیشرفت کے طور پر لیا جارہا ہے۔

 اور کہا جارہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے وقار کو بروئے کار لاتے ہوئے اس طرح کے طرز عمل کا مظاہرہ ہو تو پھر جمہوریت اور سیاست بھی مضبوط ہوسکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود اراکین پارلیمنٹ اور اہل سیاست کو بھی ان طرز عمل اختیار کرنا ہوگا جس سے سیاسی استحکام آئے کیونکہ ماضی قریب میں جاری سیاسی محاذ پر تناؤ اور ٹکراؤ سے کس جماعت یا قیادت کو فائدہ یا نقصان ہوا ہو اس حوالے سے دو آرا ہوسکتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس عمل سے نقصان ملکی معیشت کا ہورہاہے اور اسکے مضر اثرات ملک بھر میں رونما ہورہے ہیں لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضرور ہے کہ پارلیمنٹ واقعہ کی نوبت کیونکر آئی۔ معاہدے کے مطابق جلسہ کے اوقات کار چار سے سات بجے تک تھے لیکن تاریخ یہی ہے کہ مشروط اجازت ناموں پر اسطرح عمل درآمد نہیں ہوتا جس طرح اس جلسہ کیلئے تھا ۔8ستمبر کو جو ہوا اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی محاذ پر پتھراؤ کی بجائے بڑے ٹکراؤ کی کیفیت طاری ہوئی۔ اگر8ستمبر کا جلسہ پر امن حالات میں ہوتا تو اسکے بعد لاہور سمیت دیگر شہروں میں بھی جلسوں کا انعقاد ممکن بن سکتا تھا۔

خصوصاً 8ستمبر کی رات دراصل علی امین گنڈا پور کی جانب سے جلسہ میں کی جانے والی تقریر ریاست ریاستی اداروں ،سیاسی مخالفین میڈیا اور خواتین کے حوالے سے اختیار کئے جانے والے طرز عمل سے خود وزیر اعلیٰ نے اپنے کردار اور اپنی جماعت کے آگے بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا ۔اگر چار یہ سات بجے تک کا جائزہ لیا جائے تو جلسہ کے مقررین نے بھی کوئی ایسی بات نہیں کی جو قابل اعتراض ہو لیکن علی امین گنڈا پور نے تمام ترکوششوں کاوشوں پر پانی پھر دیا اور خود ان کیخلاف مقدمہ بھی درج ہوا اور ان کے اراکین پارلیمنٹ کی گرفتاریاں بھی ہوئیں ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما پارلیمنٹ کے مذکورہ واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے نظر آئے اور واقعہ کا نوٹس لینے کی اپیل کرتے دکھائی دیئے تو دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف اور پی ٹی آئی کے اراکین خصوصاً علی محمد خان کے درمیان جھڑپ ہوئی ۔ علی محمد خان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں جو ہوا وہ سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔ اچھا ہوا سپیکر ایاز صادق نے واقعہ کا نوٹس بھی لیا اراکین کی رہائی کے لیے بھی احکامات جاری کئے اور واقعات کی تحقیقات بھی شروع کردیں ۔اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی پسپائی کیلئے تیار نہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی مخالفین کو ہی نہیں ریاست اور ریاستی اداروں کو بھی ٹارگٹ کرتی نظر آرہی ہے جو کسی بھی حوالے سے ملکی مفاد میں نہیں۔ آج ملک معاشی طور پر بدحالی سے دوچار ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ملک گھمبیر چیلنجز کاشکار ہے اور معاشرے کے طبقات پریشان ہیں اور علاج سیاسی مذاکرات ہی ہیں ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں