وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ امریکامعاشی حوالے سے اہم

وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ امریکامعاشی حوالے سے اہم

(تجزیہ:سلمان غنی) وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ امریکا کا بنیادی مقصد تو جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب ہے لیکن جن حالات میں ان کا دورہ شروع ہواہے اسے پاکستان کے معاشی مستقبل کے حوالے سے اہم قراردیا جا رہا ہے۔

کیونکہ دورہ میں انکی بعض عالمی رہنمائوں کے ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک حکام سے ملاقاتیں بھی شیڈول ہیں اور اس دورہ کے دوران ہی یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 25ستمبر کو آئی ایم ایف پاکستان کیلئے اپنے 7ارب ڈالرز کے پروگرام کی منظوری دیدے گا اور اسکی منظوری کے بعد ہی مختلف ممالک کے ساتھ ہونے والے بعض معاہدوں پر پیشرفت شروع ہوگی لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ وزیراعظم کا دورہ امریکا خصوصاً جنرل اسمبلی سے انکا خطاب کتنا اہم ہے عالمی مالیاتی اداروں سے ملاقاتوں کے مقاصد حاصل ہو پائیں گے اور امریکی صدر بائیڈن کے عشائیہ سمیت مختلف امریکی عہدیداران سے ملاقاتوں کا عمل کتنا نتیجہ خیز ہوگا وزیراعظم شہباز شریف کو ایک کریڈٹ ضرور دیا جا سکتا ہے کہ مشکل حالات میں حکومت سنبھالنے کے بعد نا صرف انہوں نے پاکستان پر طاری دیوالیہ پن کی تلوار کو ہٹایابلکہ وہ معیشت کو خطرناک زون سے بھی باہر لے آئے اور اب بھی انکی دن رات کوشش یہی ہے کہ وہ ملکی معاشی بحالی اور ترقی کے عمل کو تیز تر کریں۔

وہ مخالفین کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے ملک میں سیاسی استحکام پر زور دیتے نظر آ رہے ہیں گو کہ اب بھی ملک پر بہت سے معاشی خطرات اور خدشات ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انکی کوششوں سے معاشی اشارئیے مثبت سامنے آ رہے ہیں پٹرولیم اور شرح سود میں کمی سے کسی حد تک مہنگائی پر اسکے اثرات ہوئے ہیں زرمبادلہ ذخائر 26ماہ کی بلند ترین شرح پر ہیں آئی ٹی کی برآمدات اوسط تین سو ملین ڈالرز ماہانہ برقرار ہیں روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں بھی استحکام نظر آ رہا ہے ، حکومت غیر ملکی و ملکی سرمایہ کاری میں بہتر اور کاروبار کو آسان بنانے کیلئے کچھ نئے منصوبے لا رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے دورہ امریکا پر روانگی کے بعد لندن میں ملکی معاشی و سیاسی صورتحال کا ذکر کرتے واضح کیا کہ ہمارا اصل معاشی مضبوطی ہے اور ہدف یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو انہوں نے معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قوم سیاسی جماعتوں اداروں اور صوبوں کو مل کر کام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی افراتفری میں ہم بہت سا وقت ضائع کر چکے ہیں مزید وقت ضائع کرنا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ،عوام انتشاری سیاست کو مسترد ، اپنے مسائل کا حل اور معاشی بہتری چاہتے ہیں حکومت کی ابتک کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اسے آئیڈیل تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ حقیقت ہے۔

کہ انہوں نے معاشی حوالے سے قابل عمل پالیسیوں کا تعین کیا اور اس پر گامزن نظر آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ چین سمیت سعودی عرب ابو ظہبی و دیگر ممالک انکی حکومت سے اچھے تعلقات قائم کرکے سرمایہ کاری پر آمادہ ہیں لیکن اب انکے دورہ امریکا کو اس حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے اور اس مرحلہ پر ان کا جنرل اسمبلی سے خطاب بھی اہم ہوگا وہ غزہ اور کشمیر کی صورتحال پر جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے یہاں روا رکھی جانے والی نسل کشی پر جراتمندانہ آواز اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یقیناً اس حوالے سے جنرل اسمبلی میں ان کا خطاب بھی اہم ہوگا اور وہ سلامتی کونسل کے ایجنڈا پر موجود دیرینہ مسائل کے حل پر بھی زور دیں گے وزیراعظم تقریر میں موسمیاتی تبدیلی اور اسکے پاکستان پر مضر اثرات اور نقصانات سے عالمی برادری کو آگاہ کریں گے اور بتائیں گے کہ پاکستان کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا اور اس حوالے سے خود عالمی برادری کا کردار کیا رہا مذکورہ اجلاس میں وزیراعظم کا ٹارگٹ اسلاموفوبیا بھی ہوگا اور اس رحجان کے خاتمہ پر زور دینے کے ساتھ اس کے خلاف اقدامات کی اپیل کریں گے وزیراعظم اور ان کی حکومت بظاہر کسی بھی بلاک کا حصہ نہ بننے کی علمبردار ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی آج کی حکومت خصوصاً وزیراعظم شہباز شریف بارے عام تاثر یہ ہے کہ وہ چین سے مضبوط دوستی اس سے موثر تعلقات اور خصوصاً سی پیک کے ٹیک آف کرنے کیلئے یکسو اور سنجیدہ ہیں اور وہ اس کا کھلا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

امریکہ سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہونے کے باوجود وہ چین کو علاقائی صورتحال اور معاشی معاملات میں اپنا مخلص دوست سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار انہوں نے دورہ امریکہ سے روانگی سے قبل چین کی 75ویں سالگرہ پر اسلام آباد تقریب سے خطاب میں بھی کیا لہٰذا اس حوالے سے ماہرین کی رائے ہے کہ اس تناظر میں ان کا دورہ امریکا اہم ہوگا اور یہ انکی صلاحیتوں اور ویژن کا امتحان بھی ہوگا کہ پاکستان کی علاقائی اہمیت و حیثیت کا ادراک وہ امریکی حکام کو کیسے کراتے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ باوجود کہ شہباز شریف منتخب وزیراعظم ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خارجہ محاذ پر مختلف ممالک خصوصاً اہم ممالک کی حکمت عملی انکی ترجیحات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور انکے سامنے پاکستان کا مضبوط کیس پیش کرنے اور پاکستان کو سب کی ضرورت بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں دورہ امریکہ کے دوران انکی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس سے ملاقات کوبھی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے جس پر بھارت کی بھی خصوصی نظر ہوگی علاوہ ازیں خارجہ آفس ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی سائیڈ لائنز پر دوطرفہ ملاقاتوں کا عمل اہم ہوگا جس میں ترکی سمیت متعدد مالک کے ہیڈ آف سٹیٹس سے ملاقاتیں متوقع ہیں اور مذکورہ دورہ شہبازشریف کی مخلوط حکومت کیلئے مفید اثرات کا حامل ہوگا اور اس دورہ کے دوران آئی ایم ایف سے پاکستان کیلئے نئے پروگرام کی منظوری سمیت سرمایہ کاری بارے اہم خبریں آ سکتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں