جسٹس فائز بیٹھیں یا جسٹس منصور،مسئلہ نہیں :بلاول
کوئٹہ (سٹاف رپورٹر ،دنیا نیوز،نیوز ایجنسیاں) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی عدالت ہر صورت بنے گی نہ بنی تو نقصان ہوگا، جو چیمپئن بنے ہیں انہیں کچھ معلوم نہیں، آئینی ترمیم سے متعلق میں موجودہ چیف جسٹس کیلئے جدوجہد نہیں کررہا۔۔۔
میرا نہیں آپ کا ایجنڈا کسی خاص شخصیت کیلئے ہوسکتا ہے لہذا مجھے کوئی مسئلہ نہیں جسٹس فائز عیسیٰ یا جسٹس منصور میں سے کوئی بھی آکر آئینی عدالت میں بیٹھے ،آئین پارلیمان نے بنایا مگر حکمرانی کسی اور کی ہے ، آپ چاہتے ہیں فیصلے ہوتے رہیں اور ہم شکایت بھی نہ کریں؟، جو آئین کو نہیں مانتا وہ سیاست اور وکالت چھوڑ دے ،آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے ، میرا بلوچستان کے وکلا کے ساتھ خاص طور پر گہرا لگاؤہے ، بلوچستان کے وکلا نے آمریت کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بلاو ل بھٹو زرداری نے بلوچستان ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کے عوام کو کچھ عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے ،ہماری نسلوں نے جمہوریت کیلئے قربانیاں دی ہیں،ہم خونی جدوجہد نسلوں سے کرتے آرہے ہیں، یہ کسی بندوق کا انقلاب نہیں رہا، کوئی چیز ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوئی ۔ پوری آزاد عدلیہ نے ہمارے جمہوری سفر میں ساتھ دیا ، 30 سال کی جدوجہد کرنے کے بعد 18 ویں ترمیم کی منظوری اور 1973 کے آئین کی بحالی اس کی بہترین مثالیں ہیں ۔
میں مانتا ہوں کہ آج بہت برے حالات ہیں لیکن حالات اس وقت بھی بہت برے تھے جب ایک ایسا شخص بیٹھا تھا جس کے خلاف آپ کچھ بول ہی نہیں سکتے تھے ، آپ مجھے بتائیں کہ توہین عدالت کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی جج کے خلاف بولیں تو آپ کو زندگی بھر کیلئے سزا ملے گی؟، کیا یہ اظہار خیال کی آزادی ہے کہ آپ کوئی فیصلہ دیں،آپ کسی وزیراعظم کو نکالیں،آپ 18ویں ترمیم کو 19ویں ترمیم میں تبدیل کریں اور ہم کچھ کر بھی نہ سکیں؟۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہمیں مکمل انصاف کا تصور بھٹو شہید کے ریفرنس کے بعد یاد آیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ صرف آئینی عدالت کے قیام کا نہیں بلکہ اس کے ساتھ عدالتی اصلاحات اور ججز کے تقرری کے طریقہ کار کو درست کرنے کا بھی ہے ، سندھ ہائی کورٹ کی 13 اور لاہور ہائی کورٹ میں تقریباً 24اسامیاں خالی ہیں لیکن معزز ججز صاحبان آپس میں بات نہیں کرتے ، اتنے سارے کیسز ہیں اور ہر چند مہینے بعد کوئی سیاسی مسئلہ اٹھ جاتا ہے جہاں پوری وکلا اور عدالت کا دھیان ان کی طرف چلا جاتا ہے ۔