زیرالتوادہشت گردی مقدمات میں 121فیصد اضافہ
اسلام آباد(عدیل وڑائچ)قانونی سقم کے باعث گزشتہ تین برسوں کے دوران ساڑھے 6 ہزار دہشتگردوں میں سے صرف 774 دہشتگردوں کو سزائیں سنائی جا سکیں جن میں سے صرف 104 دہشتگردوں کی سزائیں برقرار رہ سکیں ۔
ملک میں انسداد دہشتگردی کی 91 عدالتیں کام کر رہی ہیں جن میں پنجاب میں 23، خیبرپختونخوا میں 13، سندھ میں 32، بلوچستان میں 9، آزاد کشمیر میں 10، گلگت بلتستان میں دو اور اسلام آباد میں 2 عدالتیں شامل ہیں۔ سال 2022 سے 2023 کے دوران انسداد دہشتگردی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں 121 فیصد اضافہ ہوا ۔ دستاویزات کے مطابق سال 2020 سے 2023 کے دوران ساڑھے 6 ہزار دہشتگردوں کا چالان عدالتوں میں پیش کیا گیا جن میں سے صرف 11 فیصد یعنی 774 کو سزائیں سنائی گئیں ، 911 کو بری کر دیا گیا ، 465 نے بریت کی اپیل دائر کی جن میں سے 90 سزائیں ختم ہو گئیں اور 104 سزائیں برقرار رہ سکیں۔ سال 2024 میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی رہی جہاں اب تک 893 چالان پیش کئے گئے جن میں صرف 93 کو سزائیں ہو سکیں یہ شرح صرف 10 فیصد ہے ۔ 2024 کے دوران پیش کئے گئے چالان کے تناسب سے سب سے کم سزائیں خیبرپختونخوا کی عدالتوں میں ہوئیں جنکا تناسب صرف صفر اعشاریہ سات فیصد رہا۔
رواں سال خیبر پختونخوا میں دہشتگردوں کے خلاف 414 چالان پیش کئے گئے جن میں سے صرف 3 دہشتگردوں کو سزائیں سنائی جا سکیں۔ پنجاب کی عدالتوں میں 267 چالان پیش کئے گئے جن میں سے صرف 63 کو سزائیں سنائی گئیں، پنجاب میں یہ تناسب 23.5 فیصد رہا۔ اسی طرح سندھ میں 126 چالان پیش کیے گئے اور صرف 16 دہشتگردوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ بلوچستان میں 86 چالان پیش ہوئے اور صرف 11 دہشتگردوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ سندھ اور بلوچستان کی عدالتوں میں پیش کئے گئے چالان اور سزاؤں کا تناسب 12.6 اور 12.7 فیصد رہا۔ سکیورٹی حکام کے مطابق ان دہشتگردوں کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کی صورت میں گرفتار کیا جاتا ہے مگر قانونی سقم کے باعث یہ دہشتگرد عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں جسکے باعث دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی اداروں کی کوششوں اور قربانیوں کو بڑا نقصان پہنچتا ہے ۔ پاکستان میں دہشتگردی کے مقدمات گواہوں کی تعداد پر انحصار ، سکیورٹی پر تحفظات ، دھمکیوں اور رکاوٹوں کے باعث زیر التوا ہو جاتے ہیں اور یہ فیکٹرز ہائی پروفائل کیسز میں دہشتگردوں کی بریت میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔