طاقت کی بجائے سیاسی عمل سے مسائل حل کرنیکی ضرورت
(تجزیہ:سلمان غنی) سیاسی و معاشی استحکام پر حکومت اپوزیشن کے درمیان مفاہمت ممکن نہیں بن پا رہی ،بلاشبہ ایک دہائی سے قومی سیاست پر احتجاجی سیاست کا غلبہ ہے اور اسکے اثرات ملکی معیشت اور کاروباری حالات پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ منتخب حکومتوں کے باوجود بے چینی مایوسی اور بے یقینی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں۔
تناؤ اور ٹکراؤ کی جگہ ٹھہراؤ قائم نہیں ہوتا اور اس حوالے سے بنیادی ذمہ داری ہمیشہ حکومت کی ہوتی ہے کہ وہ ملکی مفادات کے تابع اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلے اور خود ملک اور حکومتی معاملات آگے چلتے نظر آئیں مذکورہ جذبہ کا اظہار خود شہباز شریف نے پی ٹی آئی حکومت کے دور میں اس وقت کے وزیراعظم کو اسمبلی فلور پر چارٹر آف اکانومی کی پیشکش میں کیا اور کہا تھا کہ سیاست اور پروگرام اپنا اپنا لیکن ملکی معیشت پر سیاست نہیں ہونی چاہئے اس پر مل کر چلا جائے ، لہٰذا اپوزیشن لیڈر کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے وہ یہ کہتے نظر آئے کہ میں چوروں اور ڈاکوؤں کو جیلوں میں بند کروں گا اور اس طرح سے انہوں نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور کو ملک میں سیاست کی تبدیلی گورننس کی فراہمی مفاد عامہ میں اقدامات اور ملکی معیشت میں مضبوطی کے لئے بروئے کار لانے کی بجائے اپنے مخالفین کو دیوار سے لگانے اور جیلوں میں بھجوانے پر خرچ کیا اور سیاسی محاذ آرائی عروج پر رہی بعد ازاں انکی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد نئی حکومت کا قیام اس صورتحال میں عمل میں آیا کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور پھر ماضی کی حکومت نے نئی حکومت پر اثر انداز ہونے کیلئے سسٹم کو ٹارگٹ کیا اور صوبوں میں اپنی حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ کر ہنگامی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی اور اسلام آباد پر چڑھائی کے پروگرام ترتیب دیئے بعض اداروں کی قیادت کو نشانہ بنا کر سب کو دفاعی محاذ پر لانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی لیکن انکے عزائم تو پورے نہ ہو سکے مگر معیشت کمزور ہوتی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کو آگے لیجانے اورمعاشی خود انحصاری کی منزل پر پہنچانے کیلئے اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا اور یہاں استحکام لانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت کو چاہئے کہ مسائل کا حل طاقت اور قوت کی بجائے سیاسی عمل سے یقینی بنائے اور سیاسی قوتوں کے درمیان فاصلے کم کرے ۔