حکومت شنگھائی کانفرنس کے بعد ترامیم پاس کروانے کیلئے پر امید

 حکومت شنگھائی کانفرنس کے بعد ترامیم پاس کروانے کیلئے پر امید

(تجزیہ:سلمان غنی) عدالتی اصلاحات پر مبنی آئینی ترمیمی بل قومی سیاست پر غالب ہے حکومت اس حوالے سے مطمئن دکھائی دے رہی ہے۔

کہ وہ شنگھائی کانفرنس کے بعد مجوزہ ترمیم آسانی سے پاس کروالے گی او راس حوالہ سے ان کا مشاورتی عمل نتیجہ خیز مرحلہ پر ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی اور ان کے اتحادی آئینی ترمیم کو اپنی سیاست کیلئے زندگی موت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے ناکام بنانے کیلئے مصر ہیں او ان کی جانب سے احتجاجی عمل بھی دراصل آئینی ترمیم پر اثرانداز ہونے کیلئے ہے ۔ بلاشبہ موجودہ حالات میں آئینی ترمیم پر خود حکومت اور اپوزیشن کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے اور اس بنا پر ہی دونوں جانب سے اپنی اپنی سیاسی طاقت کی صف بندی کا عمل جاری ہے ۔ فی الحال حکومت کی تمام تر کوششوں کاوشوں کے باوجود مجوزہ ڈرافٹ پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور ابھی تک کسی بھی فریق کے پاس حتمی مسودہ بھی نہیں البتہ جے یو آئی کے حوالہ سے خبریں ہیں کہ وہ کوئی مسودہ تیار کر چکی ہے ۔بلاول کے حوالے سے خبریں تھیں کہ مذکورہ ترمیم کیلئے ٹاسک ان کے سپرد ہے لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ ترمیم کے حوالے سے نمبرز گیم ابھی مکمل نہیں ہوئی ویسے بھی نمبرز گیم کے حوالے سے ساری ذمہ داری تو خود حکومت کی ہے اور آئینی ترمیم خود حکومت کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے ۔دوسری جانب اسلام آباد کے بعض ذمہ دار ذرائع تو یہ کہتے نظر آ رہے ہیں وقت کے تعین بارے حتمی تاریخ کی بابت خاموشی کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو ابھی نمبرز گیم میں مشکلات درپیش ہیں اور اس بنا پر انہوں نے اپنے اراکین کو 15 اکتوبر تک واپسی کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں ۔

حکومتی ذرائع مولانا فضل الرحمن کی ترمیم کیلئے حمایت پر اطمینان کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں اور اس حوالہ سے رواں ہفتہ میں ان کی ایوان صدر میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ سے ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے مگر مولانا فضل الرحمن کے قریبی ذرائع حکومتی حمایت کی تردید کرتے ہوئے کوئی واضح اعلان سے کتراتے نظر آتے ہیں ۔البتہ غیر جانبدار حلقے فضل الرحمن کے مذکورہ ترمیم پر کردار کو پراسرار قرار دیتے نظر آ رہے ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ ممکنہ سہولتوں اور تعاون کے باوجود بھی نمبرز گیم بارے حکومت کوئی واضح اعلان نہیں کرپا رہی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں عزائم کو پورا کرنے کیلئے حکومت اور اتحادی سرگرم ہیں تو دوسری جانب عدلیہ کی آزادی کے نام پر اصلاحاتی عمل کے آگے بند باندھنے کے پیچھے بھی کچھ جماعتوں کے ساتھ کچھ اور عوامل بھی سرگرم ہیں ۔عدالت عظمیٰ میں ممکنہ بڑی تبدیلی سیاسی محاذ پر بڑے اثرات کا باعث بن سکتی ہے ۔ لہٰذا اکتوبر کے تیسرے ہفتہ کو آئینی اصلاحات اور خود حکومت کے مستقبل کے حوالے سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ نواز شریف سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول کی ملاقات کو بھی آئینی ترمیم کے تناظر میں لیا جا رہا ہے ۔ ملاقات میں بلاول نے آئینی ترامیم کے حوالہ سے نواز شریف کو فضل الرحمن سمیت مختلف قائدین سے ملاقاتوں کے حوالہ سے اعتماد میں لیا ۔ملاقات میں مجوزہ آئینی ترمیم بارے حتمی تجاویز پر بھی اتفاق رائے ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں