26ویں آئینی ترمیم منظوری پر حکومت مقصد میں کامیاب

26ویں آئینی ترمیم منظوری پر حکومت مقصد میں کامیاب

(تجزیہ:سلمان غنی) عدالتی امور بارے 26ویں آئینی ترمیم پر اپوزیشن کی حکمت عملی کے باوجود حکومت پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی۔

 مذکورہ ترمیم بارے حکومت نے اہم جماعتوں سے مشاورتی عمل شروع رکھا تھا لیکن آخری وقت میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پی ٹی آئی نے مذکورہ ترمیمی بل کا نہ صرف اس کا حصہ بننے سے انکار کیا بلکہ اسے عدلیہ کی ساکھ اور اہمیت پر اثر انداز ہونے کی منظم کوشش قرار دیتے ہوئے اسے مسترد بھی کردیا لیکن جمعیت علما اسلام اور اسکے لیڈر مولانا فضل الرحمن کو یہ کریڈٹ ضرور دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے مذکورہ ترمیم پر شدید تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اس حوالے سے مرکزی حیثیت بھی اختیار کی اور بعد ازاں آئینی بل کی مشروط حمایت بھی کر دی اور انکی مشروط حمایت کے باوجود ان سے بہت سی توقعات قائم کرنے والی پی ٹی آئی نے انکے مذکورہ آئینی ترمیم بارے بڑے کردار کو سراہتے ہوئے اس ترمیم کی مخالفت کا اعلان کیا لیکن اپوزیشن کے کردار بارے مولانا فضل الرحمن نے تعلقات جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ مذکورہ ترمیم بارے مکمل اتفاق رائے کیونکر ممکن نہ بن پایا فضل الرحمن اپنے سیاسی کردار کے باعث پی ٹی آئی کو ساتھ دینے پر آمادہ کیوں نہ کر سکے اور یہ کہ مذکورہ آئینی ترمیم کے ذریعہ حکومت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو پائے گی بلاشبہ عدالتی اصلاحات کی بات تو طویل عرصہ سے کی جا رہی تھی اور تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتیں بھی آئینی معاملات نمٹانے کیلئے آئینی عدالت کی ضرورت و اہمیت کی بات کرتی نظر آئی تھیں لیکن اس پر عملی پیشرفت ممکن نہیں بن رہی تھی مگر یہ موقع بعض عدالتی فیصلوں اور شخصیات نے خود حکومت کو فراہم کر دیا جس حوالے سے حکومت کے تحفظات تھے اور ایک عام تاثر یہ بن رہا تھا کہ عدلیہ میں ہونے والی تبدیلی کے بعد ملک میں جاری سسٹم کو خطرات لاحق ہیں اور خود وزیر دفاع سمیت خود حکومتی ذمہ داران یہ کہتے دکھائی دے رہے تھے کہ عدلیہ میں اعلیٰ سطح تبدیلی کے بعد انتخابات کا ریکارڈ کھل سکتا ہے مقصد ملک میں نیا بحران ہے لہٰذا اس طرح کے خطرات خدشات بھی نئی آئینی ترمیم کا باعث بنے اور اب مذکورہ ترمیم کے باعث ان خدشات کا بندوبست ہوا لگ رہا ہے جسکے تحت اب چیف جسٹس کی تقرری میں تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا اختیار وزیراعظم کا اختیار ہوگا لہٰذا مذکورہ آئینی ترمیم کی صورت میں نہ تو کسی چیف جسٹس کی توسیع ممکن رہی اور نہ ہی اب سینئر ترین جسٹس منصور شاہ چیف جسٹس بنتے نظر آ رہے ہیں اور اب معتدل جسٹس یحیی آفریدی کا نام سامنے آ رہا ہے اور مذکورہ ترمیم کا مقصد کسی پیر فقیر کو ہی ریس سے نکالنا شامل نہیں تھا بلکہ اصل مسئلہ مخصوص نشستوں کا بھی ہے اور حکومت کسی طور بھی نہیں چاہ رہی تھی کہ یہ نشستیں پی ٹی آئی کے کھاتے میں جائیں جسکے حوالے سے سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ موجود ہے لہٰذا اس آئینی ترمیم کے بعد اب بھی بڑا سوال یہی نظر آ رہا ہے کہ خصوصی نشستوں بارے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ پر عمل درآمد ہو پائے گا مذکورہ ترمیم پرجہاں حکومتی مفادات کی بات ہو رہی ہے تو وہاں یہ بات بھی ہر سطح پر ڈسکس ہوتی دکھائی دیتی ہے کہ آخر عدلیہ بارے کسی ایک جماعت کی جانب جھکاؤ کا تاثر کیوں رہا اور عدالتی فیصلے عدل اور انصاف کی بنا پر ہوں تو کوئی نہ عدلیہ پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور نہ ہی عدالتی فیصلوں کو متنازعہ قرار دیا جا سکتا ہے البتہ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کے حکومتی آئینی ترمیم کی حمایت کا تعلق ہے تو یہ کریڈٹ ہر صورت ان کا ہے کہ انہوں نے حکومتی آئینی بل کو من و عن تسلیم نہیں کیا آئینی عدالت کی جگہ آئینی بنچز کی تکمیل یقینی بنائی فوجی عدالتوں کا راستہ روکا اور انہوں نے مذکورہ ترمیم میں سود کیخلاف اہم ترمیم کو پیکیج میں یقینی بنایا مولانا فضل الرحمن نے حکومتی مسودے کے مقابلہ میں اپنا مسودہ پیش کیا اور تحریک انصاف کو بھی اس میں ساتھ ملانے اور چلانے کی ممکنہ کوشش کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاست اس وقت اصولوں کی بجائے حکومت اور مقتدرہ کے خلاف ہے اور وہ کسی ایسے عمل میں فریق نہیں بننا چاہتی جس سے یہ تاثر عام ہو کہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور اس سیاست سے فی الحال پی ٹی آئی کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے اور یہ تاثر بھی عام ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی سیاست کو ملکی مفادات سے جوڑنے کی بجائے اپنی سیاست اور مفادات کے تابع رکھنا چاہتے ہیں جسکی سب سے بڑی مثال یہ کہ جیل میں ملاقات کرنے والے ساتھیوں کو پوچھتے رہے کہ مجھے ترمیم بارے نہیں احتجاجی تحریک بارے بتاؤ اور یہ بتاؤ کہ میری رہائی کیلئے تم نے اب تک کیا کیا؟ انکی ذہنی حالت اور سیاست کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے شنگھائی کانفرنس پر بھی اپنی جماعت کو احتجاج کی ہدایات دیں مطلب یہ کہ وہ ملک میں اپنے مفاد میں احتجاجی کیفیت ہی طاری رکھنا چاہتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے درمیان غیر اعلانیہ ایجنڈا میں حکومت کی مخالفت ہی نہیں پختونخوا کی سیاست کے مفادات بھی ہیں اور اسے مولانا کی سیاست کا جادو ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ حکومتی ایجنڈا کے مطابق آئینی بل کی حمایت کے باوجود پی ٹی آئی مولانا فضل الرحن کا ‘‘پلو’’ چھوڑنے کو تیار نہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا کسی بڑے کھیل کا حصہ ہیں ۔بلاشبہ حکومت عدالتی اصلاحات بارے ایجنڈا میں کامیاب رہی مگر اسے اس امر کا جائزہ بھی لینا ہوگا کہ اس عمل سے کیا واقعتاً جمہوری و سیاسی حوالے سے ملک آگے کی طرف چل پائے گا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں