احتجاجی صلاحیت کا مظاہرہ اور پسپائی،بشریٰ بی بی کا کردار پراسرار
(تجزیہ:سلمان غنی) حکومت کے خلاف اپنی حتمی کال کیلئے میدان میں اترنے والی پی ٹی آئی نے کچھ حاصل کیے بغیر ہی پسپائی اختیار کرلی، بلکہ پرتشدد احتجاج کے بعد پی ٹی آئی پر مشکلات کا ایک نیا سلسلہ نئے مقدمات کی صورت میں نکلتا محسوس ہو رہا ہے۔
اسلام آباد کی انتظامی مشینری نے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے غیر قانونی اقدامات اور فورسز پر حملوں کے مرتکب افراد کی تلاش شروع کردی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کے اندر سے ہی ایک نئی بلیم گیم شروع ہو چکی ہے او راب جارحانہ حکمت عملی کے بعد یکدم ہونے والی پسپائی اور پارٹی کی ہونے والی رسوائی کی ذمہ داری بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر ڈالی جارہی ہے ، اب پی ٹی آئی کو ازخود اس کا جائزہ لینا پڑے گا کہ احتجاج کی بڑی مشق کا اسے فائدہ کیا ہوا اور نقصان کیا، بلاشبہ احتجاجی عمل کے نتیجہ میں انہوں نے اپنی احتجاجی صلاحیت کا مظاہرہ تو کر ڈالا لیکن یہ حکومت سے کچھ منوائے بغیر پسپا ہوگئی یہ اس کا بڑا سیاسی نقصان ہے ،جہاں تک مذکورہ احتجاجی عمل میں بشریٰ بی بی کے کردار اور ان کی لیڈر شپ کا سوال ہے تو مذکورہ احتجاج میں ان کی ہنگامی بنیادوں پر شرکت ہر حوالہ سے پراسرار تھی بلکہ ان کی جیل سے رہائی کے عمل کی ٹائمنگ کو بھی پراسرار قرار دیا جاتا ہے ۔
انہوں نے کچھ ہی دنوں میں جماعت کے اندر مرکزیت حاصل کی اور پارٹی کو احتجاجی عمل میں جھونک کر ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جس پر اب خود جماعت کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ اب آنے والے حالات میں ان کا کردار کیا ہوگا یہ ایک بڑا سوال ہے ، بلاشبہ پی ٹی آئی پر برا وقت ہے اس کی قیادت اور ذمہ داروں پر مقدمات کی بھرمار ہے لیکن یہ کیوں نہیں سوچا گیا کہ ہر مشکل کے بعد آسانی بھی ہوگی۔ تحریک انصاف اپنا مقدمہ عدالت میں لڑ رہی ہے او ربہت حد تک ریلیف مل رہا ہے ۔میڈیا کے ذریعہ وہ اپنا کیس بھی پیش کرتی نظر آ رہی ہے ، ایک صوبہ میں اس کی حکومت قائم ہے اور اسے بظاہر کوئی خطرہ بھی نہیں لیکن آخر اسے آخری کال کی ضرورت کیوں پیش آئی،کیا ریاست نے ان کے سامنے سرنڈر کر جانا تھا یہ خارج از امکان تھا جہاں تک قتل و غارت کے عمل کا سوال ہے اس کی آئین وقانون اجازت نہیں دیتا اگر پی ٹی آئی کے لوگ مارے گئے ہیں تو انہیں اس کی تفصیلات دینی چاہئیں مگر یہ تو حقیقت ہے کہ رینجرز اور پولیس کے جوان شہید ہوئے ہیں، کاش ایسا نہ ہوتا جو کچھ ہوا اس پر افسوس ہے ۔جہاں تک پختونخوا حکومت کے مستقبل کا سوال ہے بلاشبہ گورنرراج آئینی آپشن ہے مگر اس پر عملدرآمد بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا ،اچھا ہو اگر حکومت کو اپنے طرز عمل پر نظرثانی پرمجبور کیا جائے اور اسے آئین قانون کا پابند بنایا جائے ۔