مخصوص نشستیں نظر ثانی کیس : ہم آئین کے پابند ہیں، اختلافی نوٹ کی اہمیت ہی کیا؟ جسٹس امین الدین
اسلام آباد(حسیب ریاض ملک)سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے پھر ہوگی، منگل کے روز جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ان دو ججز کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارا ووٹ شمار نہ کیا جائے۔۔۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں پر نظرثانی اپیلوں کی سماعت کی۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان نے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے سے متعلق متفرق درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا مخصوص نشستوں سے متعلق مرکزی کیس کی عدالتی کارروائی براہ راست دکھائی جاتی رہی،اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت براہ راست دکھانے کیلئے سابق چیف جسٹس قاضی فائز نے درخواست دائر کی تھی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھانے کے فوری بعد فل کورٹ اجلاس طلب کیا، انتظامی فل کورٹ اجلاس میں اکثریت نے رائے دی پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی براہ راست نشریات دکھائی جائیں جبکہ بہت سے ججز نے مخالفت میں بھی رائے دی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ اجلاس میں طے ہوا عدالتی کارروائی کو بطور پائلٹ پروجیکٹ چلایا جائے گا، میرے اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل دو رکنی کمیٹی بنائی گئی، ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی عدالتی کارروائی بھی سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں براہ راست دکھائی گئی، ابھی بھی وہ پائلٹ پروجیکٹ ہی ہے ، وکیل حامد خان نے کہا کم از کم پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر منظوری کی مثال تو موجود ہے ،میری عدالت سے درخواست ہے کہ لائیو اسٹریمنگ درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جائے ۔آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ایسے ہر درخواست کا پہلے فیصلہ نہیں کیا جائے گا، فیصل صدیقی صاحب کی بھی درخواستیں ہیں سب کو سن کر فیصلہ کریں گے۔
وکیل حامد خان نے کہا سپریم کورٹ میں 26 ویں ترمیم کے خلاف بہت سی درخواستیں ہیں اور ہر کیس کا تعلق 26 ویں ترمیم سے بنتا ہے ،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کا اس کیس سے کیا تعلق ہے ؟ وکیل حامد خان نے بتایا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہی آئینی بینچز کی تشکیل ہوئی۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے 26ویں آئینی ترمیم کیس سماعت کیلئے مقرر کیا لیکن کسی درخواست گزار کی تیاری ہی نہیں تھی، ہم آئین پاکستان کے پابند ہیں، اسی لیے آئینی بینچ کیس سن رہا ہے ۔ وکیل حامد خان نے جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کے اختلافی نوٹ کا حوالہ دیا،جس پرجسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ جس اختلافی نوٹ کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس کی اہمیت ہی کیا ہے ، بہتر ہے آپ انتظار کریں، دیکھیں مزید کتنے ججز اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتے ہیں ،آپ سینئر وکیل ہیں، آپ کو علم ہے اختلافی نوٹ کی کیا اہمیت ہوتی ہے ،حامد خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست گزار کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دینا شروع کیے ۔وکیل مخدوم علی خان نے کہاپشاور ہائی کورٹ نے 14 مارچ 2024 کو فیصلہ دیا، 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے مختصر حکمنامہ دیا، 18 جولائی کو نظرثانی اپیلیں آنا شروع ہوئیں اور 23 ستمبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا، 21 اکتوبر کو 26ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی، جب آرٹیکل 191 اے نہیں تھا اس وقت نظرثانی اپیلیں آرٹیکل 188 کے تحت دائر ہوئیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آج بھی سپریم کورٹ رولز کا اطلاق ہوتا ہے ؟وکیل مخدوم علی خان نے کہا آئین کے واضح آرٹیکل 191اے کے ہوتے ہوئے رولز کو فوقیت نہیں دی جا سکتی، اگر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد رولز اس سے مطابقت رکھتے ہوں تو انھیں ضرور دیکھا جانا چاہیے ،جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو سیاسی کیسز ہیں چلتے رہیں گے ، پتہ نہیں کل ان کیسز سے کیا فیصلے ہوتے ہیں، ہم رہیں یا نہ رہیں،ہمارے سامنے پاناما کیس اوربھٹو ریفرنس کیس کی مثالیں موجود ہیں، ہم تو عام سائلین کے کیسز کیلئے اصول طے کرنے کی بات کر رہے ہیں۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا جب تک رولز نہیں بن جاتے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 2 اے اور آرٹیکل 191 اے کے تحت کم از کم پانچ رکنی آئینی بینچ ہی کیس سنے گا، بینچ کی عددی تعداد 13 نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا، مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلیں سننے والا بینچ 13 رکنی ہی ہے ، دو ججز نے اختلافی نوٹ میں بینچ سے الگ ہونے کا نہیں کہا بلکہ اختلافی نوٹ والے دو ججز نے اپنا الگ فیصلہ لکھا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ان دو ججز کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارا ووٹ شمار نہ کیا جائے ۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کل اگر پانچ ججز مزید کہہ دیتے ہیں بینچ کی تشکیل درست نہیں تو اکثریتی فیصلہ سات ججز کا خط ہوگا، آرڈر آف دی کورٹ پر دستخط کیے جائیں گے تو اسے آرڈر آف دی کورٹ کہا جائے گا، ایسی تاریخ رہی ہے آرڈر آف دی کورٹ ہی نہیں ہوتا تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ فرض کریں اگر کچھ ججز اختلاف کرتے ہیں تو کیا وہ بینچ میں رہیں گے۔ وکیل نے کہا میرٹس پر فیصلہ نہ دینے والے ججز بینچ کا حصہ رہ سکتے ہیں،مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔ مخدوم علی خان آج بھی دلائل جاری رکھیں گے۔