پاکستان کیخلاف ڈرامہ مودی کے سیاسی انجام کا پیش خیمہ
(تجزیہ: سلمان غنی) دس مئی کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں بھارت اور اس کی افواج کی ہونے والی دھلائی کے اثرات نریندر مودی سرکار کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں۔
اور خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر پاکستان کا بخار سوار ہے اور وہ شکست کی اس کیفیت سے باہر نہیں نکل پا رہے اور نفسیاتی مریض کا روپ دھار چکے ہیں ان کی افواج اور اس کی پیشہ ورانہ ساکھ کو سخت دھچکا پہنچا ہے مگر نریندر مودی اپنی ضد پر قائم ،دہشت گردی اور کشمیر کے معاملہ پر اپنا بیانیہ نہیں بدلا وہ ا س حقیقت کا ادراک نہیں کر پا رہے کہ دس مئی کے بعد پاکستان ایک نئی متوازن طاقت بن کر ابھرا ہے اور عالمی محاذ پر تسلیم کیا جا چکا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے طاقت کا توازن برابری پر آ چکا ہے لیکن نریندر مودی پھر سے پاکستان پر برستے نظر آ رہے ہیں ۔اپنی آبائی ریاست گجرات میں اپنی تقریر میں انہوں نے پاکستانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکھ چین کی زندگی جیو روٹی کھاؤ ورنہ میری گولی تو ہے ہی ان کا کہنا کہ پاکستان کی ایئر بیسز آئی سی یو میں ہیں۔ ان کے خیالات سے ظاہر ہوتا ہے وہ کسی انجانی بوکھلاہٹ سے دوچار ہیں اور جھنجلاہٹ کا شکار بن کر اپنی عبرتناک شکست کی کیفیت سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ خود ان کی اپنی اپوزیشن اس حوالہ سے بعض سوالات کھڑے کرتی نظر آ رہی ہے ۔
اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے اپنے وزیر خارجہ جے شنکر سے یہ سوال کیا کہ آخر پاکستان کے خلاف کسی ملک نے بھارت کا ساتھ کیوں نہیں دیا اور یہ کہ سیز فائر کے لئے امریکی قیادت کو کس نے مجبور کیا تھا، بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا پہلگام اور پلوامہ واقعات کو نریندر مودی کے الیکشن جیتنے کے ہتھکنڈے قرار دے رہے ہیں،بلاشبہ نریندر مودی جیسی لیڈر شپ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے اور اب بھی وہ اپنے اس ایجنڈا پر گامزن ہیں اس کا نوٹس لینا اب عالمی طاقتوں کی ذمہ داری ہے اس لئے کہ ان کی موجودگی میں اس خطہ میں امن استحکام کیلئے خطرہ ہے اور پاکستان اب تک اپنے اس موقف پر کاربند ہے کہ ہم امن کے لئے مذاکرات چاہتے ہیں۔
بامقصد مذاکرات کے ذریعہ تنازعات کے حل کی طرف بڑھا جا سکتا ہے لیکن اگر ایک طرف جارحانہ طرز عمل اور جنگ و جدل کی بات اور دوسری طرف تحقیقات اور مذاکرات کی بات کب تک چلے گی بالآخر کسی کو درمیان میں آنا پڑے گا اپنا مثبت کردار ادا کرنا پڑے گا،مودی کے جنگجوانہ بیانیے اور بڑھتی اشتعال انگیزی کا علاج ناگزیر ہے اور یہ علاج عالمی قوتوں کو ہی کرنا ہے ۔پاکستان کے خلاف جارحیت تو شاید اب ممکن نہ ہو لیکن یہ ضرور ہے کہ جو ڈرامہ نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف شروع کیا تھا یہ خود ان کے سیاسی انجام کا پیش خیمہ بنتا نظر آ رہا ہے ، ان کے سیاسی قدم اکھڑ چکے ہیں اور ان کی پریشانی ان کے چہرے سے عیاں اور ان کی انتقامی اور نفرت کی سیاست ڈانواں ڈول ہے اور ان کی باتوں اور طرز عمل کے باعث پاکستان دفاعی اعتبار سے اعتماد کا مظاہرہ کر چکا ہے البتہ ان کی سیاست کا انجام زیادہ دور نہیں لگتا کیا وہ اکتوبر میں بہار کا انتخاب جیت پائیں گے اس کے آگے بھی بڑا سوال کھڑا نظر آ رہا ہے ۔